Home ≫ ur ≫ Surah An Noor ≫ ayat 25 ≫ Translation ≫ Tafsir
یَوْمَىٕذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ وَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ(25)
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَىٕذٍ: اس دن۔} منافقین کی سزا کے بیان میں ہی ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں ان کی پوری سچی سزا دے گا جس کے وہ قانونی طور پرمستحق ہیں اوروہ جان لیں گے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی صریح حق ہے یعنی موجود، ظاہر ہے، اسی کی قدرت سے ہر چیز کا وجود ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ کفار دنیا میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں شک کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ آخرت میں انہیں اُن کے اعمال کی جزا دے کر ان وعدوں کا حق ہونا ظاہر فرمادے گا۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۳۴۵)
سید المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بلند مقام:
قرآنِ کریم میں کسی گناہ پر ایسی سختی، شدت اور تکرار و تاکید نہیں فرمائی گئی جیسی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کے اوپر بہتان باندھنے پر فرمائی گئی، اس سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِفْعَتِ منزلت ظاہرہوتی ہے۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۷۷۵)اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے آپ سے نسبت رکھنے والوں کا بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقام بہت بلند ہے اور جس کی جتنی نسبت قریب ہے اس کا اتنا ہی مقام بلند ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت رکھنے والوں کی بے ادبی اللہ تعالیٰ کے غضب و جلال کا حق دار ٹھہرنے کا باعث ہے۔