Home ≫ ur ≫ Surah An Noor ≫ ayat 31 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(31)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو۔} آیت کے ا س حصے میں مسلمان عورتوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور غیر مردوں کو نہ دیکھیں ۔ حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر تھیں ، اسی وقت حضرت ابنِ اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں پردہ کا حکم فرمایا تومیں نے عرض کی : وہ تو نابینا ہیں ، ہمیں دیکھ اور پہچان نہیں سکتے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’کیا تم دونوں بھی نابینا ہو اور کیا تم ان کو نہیں دیکھتیں ۔‘‘( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال، ۴ / ۳۵۶، الحدیث: ۲۷۸۷، ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی قولہ عزّ وجلّ: وقل للمؤمنات یغضضن۔۔۔ الخ، ۴ / ۸۷، الحدیث: ۴۱۱۲)
عورت کا اجنبی مرد کو دیکھنے کا شرعی حکم:
یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ عورت کا اجنبی مردکی طرف نظر کرنے کا وہی حکم ہے، جو مرد کا مرد کی طرف نظر کرنے کا ہے اور یہ اس وقت ہے کہ عورت کو یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی طرف نظر کرنے سے شہوت پیدا نہیں ہوگی اور اگر اس کا شبہ بھی ہو تو ہر گز نظر نہ کرے۔
{وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ: اور اپنی زینت نہ دکھائیں ۔} ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’زینت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے عورت سجتی سنورتی ہے جیسے زیوراورسرمہ وغیرہ اور چونکہ محض زینت کے سامان کو دکھانا مباح ہے اس لئے آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان عورتیں اپنے بدن کے ان اعضا کو ظاہر نہ کریں جہاں زینت کرتی ہیں جیسے سر، کان، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں اور پنڈلیاں ، البتہ بد ن کے وہ اعضا جوعام طور پر ظاہر ہوتے ہیں جیسے چہرہ،دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں ،انہیں چھپانے میں چو نکہ مشقت واضح ہے اس لئے ان اعضا کو ظاہر کرنے میں حرج نہیں ۔(لیکن فی زمانہ چہرہ بھی چھپایا جائے گا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔)( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۷۷۷)
اِس آیتِ مبارکہ کے بارے میں ملا جیون رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’زیادہ ظاہر یہ ہے کہ آیت میں مذکور حکم نماز کے بارے میں ہے (یعنی عورت نماز پڑھتے وقت چہرے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے علاوہ پورا بدن چھپائے۔ یہ حکم عورت کو) دیکھنے کے بارے میں نہیں کیونکہ عورت کا تمام بدن عورت یعنی چھپانے کی چیز ہے۔ شوہر اور مَحرم کے سوا کسی اور کے لئے اس کے کسی حصہ کو بے ضرورت دیکھنا جائز نہیں اور علاج وغیرہ کی ضرورت سے بقدرِ ضرورت جائز ہے۔‘‘( تفسیرات احمدیہ، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۵۶۲)
{وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ: اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں ۔} یعنی مسلمان عورتیں اپنے دوپٹوں کے ذریعے اپنے بالوں ، گردن،پہنے ہوئے زیور اور سینے وغیرہ کو ڈھانپ کر رکھیں ۔( تفسیرات احمدیہ، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۵۶۲)
اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں صحابیات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کا جذبہ:
جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تواس حکم پر عمل کرنے میں صحابیات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کا جذبہ قابل دید ہے، چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنہوں نے سب سے پہلے ہجرت کی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ’’اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں ‘‘ تو انہوں نے اپنی اونی چادروں کو پھاڑ کر اوڑھنیاں بنا لیا تھا۔‘‘( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النور، باب ولیضربن بخمرہنّ علی جیوبہنّ، ۳ / ۲۹۰، الحدیث: ۴۷۵۸)
اب یہاں پردے سے متعلق تین عظیم واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ پردے کی آیات نازل ہونے کے بعد (میرے رَضاعی چچا) افلح نے مجھ سے میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا:میں اس وقت تک اجازت نہیں دے سکتی جب تک نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اجازت نہ لے لوں کیونکہ ابو القعیس کے بھائی نے مجھے دودھ نہیں پلایا بلکہ ابو القعیس کی بیوی نے دودھ پلایاہے۔جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے ان سے صورتِ حال عرض کی تو ارشاد فرمایا’’اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا، افلح کو اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے رضاعی چچا ہیں ۔‘‘( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الاحزاب، باب قولہ: ان تبدوا شیءاً او تخفوہ۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۰۶، الحدیث: ۴۷۹۶)
(2)…خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کو یہ تشو یش تھی کہ عمر بھر تو غیر مردوں کی نظروں سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں وفات کے بعد میری کفن پوش لاش ہی پرلوگوں کی نظر نہ پڑ جائے!ایک موقع پر حضرت اسماء بنتِ عمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے عرض کی:میں نے حبشہ میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر اور ایک ڈولی کی سی صورت بنا کر اس پر پردہ ڈالدیتے ہیں ۔ پھر انہوں نے کھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑااور اس پر کپڑا تان کر خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کو دکھایا۔اسے دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئیں اور لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ بس آپ کی یہی ایک مسکراہٹ تھی جو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد دیکھی گئی۔( جذب القلوب، باب دوازدہم در ذکر مقبرۂ شریفۂ بقیع۔۔۔ الخ، ص۱۵۹)
(3)…حضرت اُمِّ خلاد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا، آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے چہرے پرنقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو ئیں ، اس پر کسی نے حیرت سے کہا:اس وقت بھی آپ نے منہ پر نقاب ڈال رکھا ہے!آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے جواب دیا: میں نے بیٹاضرور کھویا ہے لیکن حیا ہر گز نہیں کھوئی۔( ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فضل قتال الروم علی غیرہم من الامم، ۳ / ۹، الحدیث: ۲۴۸۸)
مذکورہ بالا حدیثِ پاک اور ان تین واقعات میں ان عورتوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو مسلمان ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے حکم پر عمل کرنے کی بجائے دنیا کے ناجائزفیشن اور رسم و رواج کو اپنانے میں بڑی کوشش کرتی ہیں اور پردے سے جان چھڑانے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم اور شرعی احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
{وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ: اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں ۔} اس آیت سے ان مردوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کے سامنے عورت اپنی پوشیدہ زینت کے اعضا مثلاً سر، کان، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں اور پنڈلیاں وغیرہ ظاہر کر سکتی ہے۔ چنانچہ وہ مرد حضرات درج ذیل ہیں،
(1)… شوہر۔
(2)…باپ۔ اس کے حکم میں دادا پَر دادا وغیرہ تمام اصول شامل ہیں ۔
(3)…شوہروں کے باپ یعنی سُسرکہ وہ بھی مَحرم ہوجاتے ہیں ۔
(4)…اپنے بیٹے۔ اِنہیں کے حکم میں اِن کی اولاد بھی داخل ہے۔
(5)… شوہروں کے بیٹے کہ وہ بھی مَحرم ہوگئے۔
(6،7)…سگے بھائی۔ سگے بھتیجے۔
(8)…سگے بھانجے۔ اِنہیں کے حکم میں چچا ماموں وغیرہ تمام مَحارِم داخل ہیں ۔
(9) …مسلمان عورتوں کے سامنے۔ غیر مسلم عورتوں کے سامنے کھولنا منع ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خط لکھا تھا کہ کُفَّار اہلِ کتاب کی عورتوں کو مسلمان عورتوں کے ساتھ حمام میں داخل ہونے سے منع کریں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کو کافرہ عورت کے سامنے اپنا بدن کھولنا جائز نہیں ۔ مسئلہ: عورت اپنے غلام سے بھی اجنبی مرد کی طرح پردہ کرے۔
(10)… اپنی ملکیت میں موجود کنیزوں کے سامنے۔ ان پر اپنا سنگار ظاہر کرنا ممنوع نہیں اور غلام اِن کے حکم میں نہیں ، اس کو اپنی مالکہ کی زینت کی جگہوں کو دیکھنا جائز نہیں ۔
(11)…مردوں میں سے وہ نوکرجوشہوت والے نہ ہوں مثلاً ایسے بوڑھے ہوں جنہیں اصلاً شہوت باقی نہیں رہی ہو اوروہ نیک ہوں۔
یاد رہے کہ ائمہ حنفیہ کے نزدیک خصی اور عنین نظر کی حرمت کے معاملے میں اجنبی کا حکم رکھتے ہیں ۔ اس طرح بُرے اَفعال کرنے والے ہیجڑوں سے بھی پردہ کیا جائے جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث سے ثابت ہے۔
(12)… وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں ، وہ ابھی ناسمجھ نابالغ ہیں ۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۷۷۸، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۳۴۹، خزاءن العرفان، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۶۵۶، ملتقطاً)
یاد رہے کہ شوہر کے علاوہ دیگر مَحارِم کے سامنے بھی عورت اپنے بناؤ سنگار کے اعضاء اس وقت ظاہر کر سکتی ہے جب ان میں سے کسی کو شہوت کا اندیشہ نہ ہو، اگر شہوت کا اندیشہ ہو تو ظاہر کرنا ناجائزہے۔
{وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ: اور زمین پر اپنے پاؤں زور سے نہ ماریں ۔} یعنی عورتیں چلنے پھرنے میں پاؤں اس قدر آہستہ رکھیں کہ اُن کے زیور کی جھنکار نہ سُنی جائے۔‘‘ اسی لئے چاہیے کہ عورتیں بجنے والے جھانجھن نہ پہنیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی دعا نہیں قبول فرماتا جن کی عورتیں جھانجھن پہنتی ہوں ۔ اس سے سمجھ لیناچاہیے کہ جب زیور کی آواز دعا قبول نہ ہونے کا سبب ہے تو خاص عورت کی آواز اور اس کی بے پردگی کیسی اللہ تعالیٰ کے غضب کو لازم کرنے والی ہوگی۔ پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے ( اللہ کی پناہ)۔( تفسیر احمدی، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۵۶۵، خزاءن العرفان، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۶۵۶، ملتقطاً)
پردے کے دینی اور دُنیوی فوائد :
یہاں پردہ کرنے کے چند دینی اور دُنیوی فوائد ملاحظہ ہوں ، چنانچہ اس کے4 دینی فوائد یہ ہیں :
(1)…پردہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
(2)…پردہ ایمان کی علامت، اسلام کا شعار اور مسلمان خواتین کی پہچان ہے۔
(3)…پردہ شرم و حیا کی علامت ہے اور حیا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔
(4)… پردہ عورت کو شیطان کے شر سے محفوظ بنا دیتا ہے۔
اور پردے کے4 دُنیوی فوائد یہ ہیں :
(1)…باحیا اور پردہ دارعورت کو اسلامی معاشرے میں بہت عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
(2)… پردہ عورت کو بُری نظر اور فتنے سے محفوظ رکھتا اور بُرائی کے راستے کو روکتا ہے۔
(3)…عورت کے پردے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا اور معاشرے میں امن و سکون رہتاہے۔
(4)…پردہ عورت کے وقار میں اضافہ کرتا اور اس کی خوبصورتی کی حفاظت کرتا ہے۔
پردے کی ضرورت واہمیت سے متعلق ایک مثال:
یہاں پردے کی ضرورت اور اہمیت کو آسانی کے ساتھ سمجھنے کے لئے ایک مثال ملاحظہ ہو،چنانچہ وہ مثال یہ ہے کہ اگر ایک پلیٹ میں مٹھائی رکھ دی جائے اور اسے کسی چیز سے ڈھانپ دیاجائے تو وہ مکھیوں کے بیٹھنے سے محفوظ ہو جاتی ہے اور اگر اسے ڈھانپا نہ جائے، پھر اس پر مکھیاں بیٹھ جائیں تو یہ شکایت کرنا کہ اس پر مکھیاں کیوں بیٹھ گئیں بہت بڑی بے وقوفی ہے کیونکہ مٹھائی ایسی چیز ہے جسے مکھیوں کے تَصَرُّف سے بچانے کے لئے اسے ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے ورنہ انہیں مٹھائی پر بیٹھنے سے روکنا بڑ امشکل ہے، اسی طرح اگرعورت جو کہ چھپانے کی چیز ہے، اسے پردے میں رکھا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل سے بچ سکتی ہے اور عزت و ناموس کے لٹیروں سے اپنی حفاظت کر سکتی ہے اور جب اسے پردے کے بغیر رکھا جائے تو اس کے بعد یہ شکایت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے کہ لوگ عورت کو تانک جھانک کرتے ہیں ، اسے چھیڑتے ہیں اوراس کے ساتھ دست درازی کرتے ہیں کیونکہ جب اسے بے پردہ کر دیاتو غیر مردوں کی فتنہ باز نظریں ا س کی طرف ضرور اُٹھیں گی، ان کے لئے عورت کے جسم سے لطف اندوز ہونا اور اس میں تَصَرُّف کرنا آسان ہو گا اور شریر لوگوں سے اپنے جسم کو بچانا عورت کے لئے انتہائی مشکل ہو گا کیونکہ فطری طور پر مردوں میں عورتوں کے لئے رغبت رکھی گئی ہے اور جب وہ بے پردہ عورت کا جسم دیکھتا ہے تو وہ اپنی شہوت و رغبت کو پورا کرنے کے لئے اس کی طرف لپکتا ہے۔
پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے:
موجودہ دور میں میڈیا کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے لوگوں کا یہ ذہن بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ عورت بھی ایک انسان ہے اور آزادی اس کا بھی حق ہے اور اسے پردہ کروانااس کی آزادی اور روشن خیالی کے برخلاف ہے اور یہ ایک طرح کی جبری قید ہے حالانکہ پردہ تو عورت کی آزادی کا ضامن ہے،پردہ اس کی عزت و ناموس کا محافظ ہے، اسی میں عورت کی عزت اور ا س کاو قار ہے۔آج ہر عقلمند انسان انصاف کی نظر سے یہ دیکھ سکتا ہے کہ جن ممالک میں عورت کے پردے کو اس کے انسانی حق اور آزادی کے خلاف قرار دے کر اس کی بے پردگی کو رواج دیا گیا، ایسے ذرائع اور حالات پیدا کئے گئے جن سے عورتوں اور مردوں کا باہم اِختلاط رہے اور ان کا ایک دوسرے کے ساتھ میل جول ہوتا رہے اور قانونی طور پر عورت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جب اور جس مرد کے ساتھ چاہے اپنا وقت گزارے اور اپنی فطری خواہشات کو پورا کرے تو وہاں کا حال کیسا عبرت ناک ہے کہ ان کا معاشرہ بگڑ گیا اور خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ گیا، شادیوں کی ناکامی، طلاقوں کی تعداد اور حرامی بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوگیا اور یہ سب تباہی عورت کو بے پردہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔([1])
{وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا: تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو۔} یعنی اے مسلمانو! جن باتوں کا تمہیں حکم دیا گیا اور جن سے منع کیا گیا، اگر ان میں بشری تقاضے کی بنا پر تم سے کوئی تقصیر واقع ہوجائے تو تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ا س امید پر توبہ کر لو کہ تم فلاح پا جاؤ۔(خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۳۵۰)
اور توبہ سے متعلق حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر ا س سے بھی زیادہ راضی ہوتا ہے جیسے تم میں سے کسی کا اونٹ جنگل میں گم ہونے کے بعد دوبارہ اسے مل جائے۔( بخاری، کتاب الدعوات، باب التوبۃ، ۴ / ۱۹۱، الحدیث: ۶۳۰۹)
[1] پردے سے متعلق شرعی اَحکام کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ’’پردے کے بارے میں سوال جواب‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ ضرور فرمائیں۔