Home ≫ ur ≫ Surah An Noor ≫ ayat 33 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا ﳓ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْؕ-وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(33)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لْیَسْتَعْفِفْ: اور چاہیے کہ پاکدامنی اختیار کریں ۔} اس آیت میں ان لوگوں کا حکم بیان کیا جا رہا ہے جو نکاح کرنےکی اِستطاعت نہیں رکھتے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ مَہر اور نان نفقہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے نکاح کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو انہیں چاہیے کہ حرام کاری سے بچے رہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مالدار کردے اور وہ مہرو نان نفقہ ادا کرنے کے قابل ہوجائیں ۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۷۷۹)
نکاح کی استطاعت نہ رکھنے والوں سے متعلق2شرعی مسائل:
یہاں نکاح کی استطاعت نہ رکھنے والوں کے بارے میں دو شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…اگر یہ ا ندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تو نکاح کرنا مکروہ ہے اور اگر ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام ہے مگر نکاح کر لیا تو نکاح بہرحال ہو جائے گا۔
(2)…جو لوگ کسی وجہ سے نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے توانہیں چاہئے کہ کثرت سے روزے رکھیں جیساکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرفنظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔‘‘( مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ۔۔۔ الخ، ص۷۲۵، الحدیث: ۳(۱۴۰۰))
{وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ: اور جو مال کما کر دینے کی شرط پر آزادی کے طلبگار ہوں ۔} آیت کے اس حصے میں غلاموں اور لونڈیوں کے بارے میں چند احکام بیان ہوئے ہیں ۔ان کا خلاصہ یہ ہے۔
(1)…جو غلام اور لونڈی مخصوص مقدار میں مال کما کر دینے کی شرط پر آزادی کے طلبگار ہوں تو انہیں ا س کا معاہدہ لکھ دینا مستحب ہے، اس طرح کی آزادی کو شریعت کی اِصطلاح میں کِتابَت اور ایسا معاہدہ کرنے والے غلام کو مُکاتَب کہتے ہیں جبکہ جو مال دینا طے پائے اسے بَدَلِ کِتابَت کہتے ہیں ۔
(2)…غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا اس وقت مستحب ہے جب وہ امانت و دیانت اور کمائی پر قدرت رکھتے ہوں تاکہ وہ حلال روزی سے مال حاصل کرکے آزاد ہوسکیں اور اپنے آقا کو مال دے کر آزادی حاصل کرنےکے لئے بھیک نہ مانگتے پھریں ، اسی لئے حضرتِ سلمان فارسی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے اس غلام کو مُکاتَب کرنے سے انکار فرمادیا جو بھیک مانگنے کے علاوہ کمائی کاکوئی ذریعہ نہ رکھتا تھا۔
(3)… مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مکاتب غلاموں کو زکوٰۃ وغیرہ دے کر ان کی مدد کریں تاکہ وہ بَدَلِ کِتابَت دے کر اپنی گردن چھڑا سکیں اور آزاد ہوسکیں ۔
شانِ نزول : حویطب بن عبدالعزیٰ کے غلام صبیح نے اپنے مولیٰ سے کتابت کی درخواست کی، مولیٰ نے انکار کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی تو حویطب نے اس کو سو دینار پر مکاتب کردیا اور ان میں سے بیس اس کو بخش دیئے باقی اس نے ادا کردیئے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۳۵۱، ملخصاً)
نوٹ:غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے کے بارے میں تفصیلی مسائل کی معلومات کے لئے بہارِ شریعت جلد 2حصہ9سے ’’آزاد کرنے کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔نیز یاد رہے کہ فی زمانہ عالمی سطح پر انسانوں کو غلام یا لونڈی بنانے کا قانون ختم ہو چکا ہے۔
{وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ: اورتم اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو۔} شانِ نزول : عبد اللہ بن اُبی بن سلول منافق مال حاصل کرنے کے لئے اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور کرتا تھا، ان کنیزوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی شکایت کی، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم مال کے لالچ میں اندھے ہو کر کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو خصوصاً اگر وہ خود بھی بچنا چاہتی ہوں اور جو انہیں مجبور کرے گا تو بیشک اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کئے جانے کے بعد بہت بخشنے والا، مہربان ہے اوراس کا وبال گناہ پرمجبور کرنے والے پر ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۳۵۲-۳۵۳، ملخصاً)
زِنا پر مجبور کئے جانے کی تفصیل :
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :زنا پر مجبور کیا جانااس وقت ثابت ہو گا جب کوئی جان سے مار دینے یا جسم کا کوئی عضو ضائع کر دینے کی دھمکی دے اور اگر (ایسی دھمکی نہ ہو بلکہ) تھوڑی بہت دھمکی ہو توزنا پر مجبور کیا جانا ثابت نہ ہوگا۔( روح البیان، النور، تحت الآیۃ: ۳۳، ۶ / ۱۵۰) اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی عورت سچے دل کے ساتھ زنا سے بچنا چاہتی ہے اور کوئی شخص اسے زنا نہ کرنے کی صورت میں جان سے مار دینے یا اس کا کوئی عضو ضائع کر دینے یا شدید مار مارنے کی دھمکی دے رہا ہے اور عورت سمجھتی ہے کہ اگر میں نے ا س کی بات نہ مانی تو یہ جو کہہ رہاہے وہ کر گزرے گا، اس صورت میں وہ زنا کئے جانے پر مجبور شمار ہو گی اور اگر اس کے ساتھ زنا ہوا تو وہ گناہگار نہیں ہو گی اور اگر دھمکی کی نوعیت ایسی نہیں بلکہ قید کر دینے یا معمولی مار مارنے وغیرہ کی دھمکی ہے تو ایسی صورت میں عورت زنا پر مجبور شمار نہ ہوگی اور زِنا ہونے کی صورت میں گناہگار بھی ہو گی۔
عورتوں کو زنا پر مجبور کرنے والے غور کریں :
یاد رہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں جو کنیزوں کو بدکاری پر مجبور کرنے سے منع فرمایا گیا، اس حکم میں کنیزوں کے ساتھ ساتھ آزاد عورتیں بھی داخل ہیں اور انہیں بھی زنا پر مجبور کرنا منع ہے،نیز زنا پر مجبور کرنا دنیا کا مال طلب کرنے کیلئے ہو یا کسی اور غرض سے بہر صورت حرام اور شیطانی کام ہے اور آیت کے آخر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زنا پر مجبور کرنے والے گناہگار ہیں ۔ اسے سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی شدید ضرورت ہے جو محنت مزدوری کر کے خود کما کر لانے سے جی چرانے کی بنا پر گھر کے اخراجات چلانے کیلئے یا اپنی خواہشات اور نشے کی لت پوری کرنے کیلئے کمینے پن کی حد پار کر دیتے اور اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور بہوؤں وغیرہ کو زنا کروانے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ اس ذریعے سے حاصل ہونے والامال گھر کے اخراجات چلانے،اپنی خواہشات اور نشہ پورا کرنے میں کام آئے، اسی طرح وہ لوگ بھی اپنی حالت پر غور کریں جو عورتوں کو ورغلا کر پہلے ان کی گندی تصاویر اور وڈیوز بنا لیتے ہیں ،یا ان کی نجی زندگی کے کچھ ایسے پہلو نوٹ کر لیتے ہیں جن کا ظاہر ہو جانا عورت اپنے حق میں شدید نقصان دہ سمجھتی ہے، پھر یہ لوگ ان چیزوں کو منظر عام پر لانے کی دھمکیاں دے کر انہیں زنا کروانے پر مجبور کرتے رہتے ہیں ، ایسے لوگ یاد رکھیں کہ جس عورت کے حق میں شریعت کے اصولوں کے مطابق زنا پر مجبور کیا جانا ثابت ہوا اسے تو اللہ تعالیٰ مہربانی فرماتے ہوئے بخش دے گا لیکن زنا پر مجبور کرنے والا بہر حال گناہگار ہو گا اور اگر اس نے توبہ نہ کی اور اس چیز سے باز نہ آیا تووہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور جہنم کے دردناک عذاب میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے، اٰمین۔