Home ≫ ur ≫ Surah An Noor ≫ ayat 34 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ(34)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَا: اور بیشک ہم نے اُتاریں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں :
(1)…قرآنِ پاک کی آیتیں روشن اور مُفَصَّل ہیں ۔
(2)…اس میں سابقہ لوگوں کی مثالیں ہیں ۔اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جس طرح تورات اور انجیل میں حدود قائم کرنے کے احکام دئیے گئے اسی طرح قرآنِ مجید میں بھی دئیے گئے ہیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ سابقہ اُمتوں میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے جن پر عذاب نازل ہوا ان کا ذکر قرآنِ پاک میں ہے اور اسے ہم نے تمہارے لئے مثال بنا دیا تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے میں اُن کی رَوِش اختیار کی تو تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل ہو سکتا ہے۔
(3)…مُتَّقِین کے لئے نصیحت ہے۔ متقین کا بطورِ خاص ا س لئے ذکر فرمایا کہ قرآن کی نصیحت سے یہی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔(تفسیرکبیر، النور، تحت الآیۃ: ۳۴، ۸ / ۳۷۸)
قرآنِ مجید سے نصیحت حاصل کرنے کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید نصیحت حاصل کرنے کا بہت بڑ اذریعہ ہے اور ا س کی برکت سے دلوں کی سختی دُور ہو جاتی، دلوں پر چڑھا ہواگناہوں کا زَنگ ختم ہوجاتا اور خشک آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کے خوف کے سبب آنسو رواں ہو جاتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دلوں کی صفائی کیا ہے؟ارشاد فرمایا: موت کی زیادہ یاد اور قرآنِ کریم کی تلاوت۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ موت کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرے اور سُنے، قرآنِ کریم کو سمجھنے کی کوشش کرے، اس کی نصیحتوں کو قبول کرے اور ظاہری و باطنی اعمال اور دیگر چیزوں سے متعلق اس کے دئیے ہوئے احکامات پر عمل کرے۔