Home ≫ ur ≫ Surah An Noor ≫ ayat 37 ≫ Translation ≫ Tafsir
رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ ﭪ--یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ(37)لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ(38)
تفسیر: صراط الجنان
{رِجَالٌ: مرد۔} اس آیت میں نور سے ہدایت حاصل کرنے والوں کے چند ظاہری و باطنی اعمال ذکر فرمائے گئے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ نور سے ہدایت حاصل کرنے والے وہ مرد ہیں جنہیں تجارت اور خریدوفروخت اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے قلبی و لسانی ذکر اور نماز کے اوقات پر مسجدوں کی حاضر ی سے، نماز قائم کرنے اور انہیں وقت پر ادا کرنے سے اور زکوٰۃ کووقت پر دینے سے غافل نہیں کرتی۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۷۸۳، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۳۵۵، ملتقطاً)
نماز سے متعلق صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا حال:
حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا بازار میں تھے، مسجد میں نماز کے لئے اقامت کہی گئی تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ بازار والے اُٹھے اور دوکانیں بند کرکے مسجد میں داخل ہوگئے۔ یہ دیکھ کرآپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ آیت ’’رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ‘‘ ایسے ہی لوگوں کے حق میں ہے۔( تفسیر ابن ابی حاتم، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۲۶۰۷) سُبْحَانَ اللّٰہ! ان مقدس ہستیوں کےنزدیک نما زکی اہمیت عملی طور پر تجارت، کاروبار اور دوکانداری سے بڑھ کر تھی اسی لئے یہ اقامت کی آواز سنتے ہی سب کچھ بند کر کے نماز کے لئے حاضر ہوجاتے تھے اور اب کے مسلمانوں کا حال سب کو معلوم ہے کہ دوکان کے پاس مسجد ہونے کے باوجود جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لئے حاضر ہونے کی بجائے اپنی دوکانداری میں مصروف رہتے ہیں اور اس اندیشے سے بھی نماز کے لئے حاضر نہیں ہوتے کہ پیچھے سے کوئی گاہک آ جائے اور وہ خالی چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ انہیں نماز کی اہمیت سمجھنے اور اسے وقت پر، جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
وقت پر اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے 3فضائل:
آیت کی مناسبت سے یہاں وقت پر اور جماعت کے ساتھ نما زادا کرنے کے 3 فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا:اعمال میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کیا ہے؟ ارشادفرمایا: ’’وقت کے اندر نماز۔‘‘( بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ لوقتہا، ۱ / ۱۹۶، الحدیث: ۵۲۷)
(2)…حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کامل وضو کیا، پھر نمازِ فرض کے لیے چلا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی تواس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‘‘(صحیح ابن خزیمہ،کتاب الامامۃ فی الصلاۃ،باب فضل المشی الی الجماعۃ متوضیاً۔۔۔الخ،۲ / ۳۷۳، الحدیث: ۱۴۸۹)
(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’منافقین پر سب سے زیادہ گراں نماز عشا اورفجر ہے اور وہ جانتے کہ ان میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے۔ بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں ۔‘‘( صحیح مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔الخ،ص۳۲۷، الحدیث: ۲۵۲(۶۵۱))
زکوٰۃ ادا کرنے کے فضائل:
قرآن وحدیث میں زکوۃ ادا کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، یہاں ایک آیت اور ایک حدیث پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۷۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ان کااجران کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اورحضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کر دی توبیشک ا س کے مال کا شر اُس سے چلا گیا۔‘‘( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۵۷۹)
عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ فضیلت کاباعث ہے:
یاد رہے کہ اس آیت میں بطورِ خاص مردوں کا ذکر اس لئے ہوا کہ عورتوں پر جمعہ یا جماعت کے ساتھ دیگر نمازوں کی ادائیگی کے لئے مسجد میں حاضر ہونا لازم نہیں ۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۳۵۵) عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ فضیلت کا حامل ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’عورت کا دالان یعنی بڑے کمرے میں نماز پڑھنا، صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھری میں نماز ادا کرنا دالان میں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے۔‘‘( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب التشدید فی ذلک، ۱ / ۲۳۵، الحدیث: ۵۷۰)
{یَخَافُوْنَ: ڈرتے ہیں ۔} آیت کی ابتداء میں جن مردوں کے اعمال ذکر فرمائے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں اُلٹ جائیں گی۔ یعنی وہ فرمانبردار بندے جو ذکر و طاعت میں نہایت مُسْتَعِد رہتے ہیں اور عبادت کی ادائیگی میں سرگرم رہتے ہیں ، اس حُسنِ عمل کے باوجود وہ اس دن سے خائِف رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہ ہوسکا۔ آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بتایا گیا کہ ا س دن دل اور آنکھیں اُلٹ جائیں گے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ دلوں کا اُلٹ جانا یہ ہے کہ شدتِ خوف اور اِضطراب سے دل اُلٹ کر گلے تک چڑھ جائیں گے، نہ باہر نکلیں نہ نیچے اُتریں اور آنکھیں اُوپر چڑھ جائیں گی یا ا س کے یہ معنی ہیں کہ کفار کے دل کفر وشک سے ایمان و یقین کی طرف پلٹ جائیں گے اور آنکھوں سے پردے اُٹھ جائیں گے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۳۵۵-۳۵۶)
{ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ: تاکہ اللہ انہیں بدلہ دے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ان نیک کاموں میں اس لئے مشغول ہوتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے بہتر اَعمال کا ثواب عطا کرے اور صرف یہی نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں مزید بھی عطا کرے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب رِزْق عطا فرماتا ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۳۵۶)