Home ≫ ur ≫ Surah An Noor ≫ ayat 61 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآىٕكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِیْقِكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًاؕ-فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةًؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(61)
تفسیر: صراط الجنان
{لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ: اندھے پر کوئی پابندی نہیں ۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں تین قول ہیں :
پہلا قول :حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہاد کو جاتے تو اپنے مکانوں کی چابیاں نابینا ؤں ، بیماروں اور اپاہجوں کو دے جاتے جو ان عذروں کے باعث جہاد میں نہ جاسکتے اور انہیں اجازت دیتے کہ ان کے مکانوں سے کھانے کی چیزیں لے کر کھائیں ، لیکن وہ لوگ اس خیال سے اسے گوارا نہ کرتے کہ شاید یہ اُن کو دل سے پسند نہ ہو، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں اس کی اجازت د ی گئی۔
دوسرا قول: یہ ہے کہ اندھے، اپاہج اور بیمار لوگ تندرستوں کے ساتھ کھانے سے بچتے کہ کہیں کسی کو نفرت نہ ہو، اس آیت میں انہیں تندرستوں کے ساتھ کھانے کی اجازت دی گئی۔
تیسرا قول: یہ ہے کہ جب کبھی اندھے، نابینا اوراپاہج کسی مسلمان کے پاس جاتے اور اس کے پاس اُن کے کھلانے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو وہ انہیں کسی رشتہ دار کے یہاں کھلانے کے لئے لے جاتا، یہ بات ان لوگوں کو گوارا نہ ہوتی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۹۱، خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۳، ملتقطاً)
{وَ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ: اور تم پر بھی کوئی پابندی نہیں ۔} آیت کے ا س حصے سے گیارہ مقامات ایسے بتائے گئے جہاں سے کھانا مباح ہے۔(1)اپنی اولاد کے گھروں سے،کیونکہ اولاد کا گھر اپنا ہی گھر ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘( ابو داؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرجل یأکل من مال ولدہ، ۳ / ۴۰۳، الحدیث: ۳۵۳۰) اسی طرح شوہر کے لئے بیوی کا اور بیوی کے لئے شوہر کا گھر بھی اپنا ہی گھر ہے۔(2) اپنے باپ کے گھروں سے۔ (3) اپنی ماں کے گھرسے۔ (4) اپنے بھائیوں کے گھروں ۔(5)اپنی بہنوں کے گھروں سے۔(6) اپنے چچاؤں کے گھر وں سے۔(7) اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے۔(8) اپنے ماموؤں کے گھر وں سے۔(9) اپنی خالاؤں کے گھروں سے۔(10) اس گھر سے جس کی چابیاں تمہارے قبضہ میں ہیں ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس سے مراد آدمی کا وکیل اور اس کے معاملات کے انتظامات پر مامور شخص ہے۔ (11)اپنے دوست کے گھر سے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۳، مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۹۱، جلالین، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۳۰۲، ملتقطاً)
کسی کی غیر موجودگی میں یا اجازت کے بغیر اس کی چیز نہ کھائی جائے:
خلاصہ یہ ہے کہ ان سب لوگوں کے گھر کھانا،کھانا جائز ہے خواہ وہ موجود ہوں یا نہ ہوں لیکن یہ اجازت ا س صورت میں جب کہ وہ ا س پر رضامند ہوں اور اگر وہ اس پر رضامند نہ ہو ں تو اگرچہ وہ واضح طور پراجازت دے دیں تب بھی ان کا کھانا،کھانا مکروہ ہے اور فی زمانہ تو یہی سمجھ آتا ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اور اجازت کے بغیر بالکل نہ کھائے کیونکہ ہمارے زمانے کے حالات میں مادیت پرستی بہت بڑھ چکی ہے۔امام غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جب آدمی اپنے کسی دوست کے گھر جائے اورصاحبِ خانہ گھر پر نہ ہو اور اِسے ا س کی دوستی پر کامل یقین ہو، نیز وہ آدمی جانتا ہو کہ ا س کا دوست اس کے کھانے پر خوش ہو گا تو وہ اپنے دوست کی اجازت کے بغیر کھا سکتا ہے کیونکہ اجازت سے مراد رضا مندی ہے اور بعض لوگ صراحتاً اجازت دے دیتے ہیں اور اس اجازت پرقسم کھاتے ہیں لیکن وہ دل سے راضی نہیں ہوتے (لہٰذا اگر قرائن کے ذریعے تجھ پر یہ ظاہر ہو کہ اسے تیرا کھانا پسند نہیں تو اس کا کھانا مت کھاؤ کہ) ایسے لوگوں کا کھانا،کھانا مکروہ ہے۔‘‘( احیاء علوم الدین، کتاب آداب الاکل، الباب الثالث، آداب الدخول للطعام، ۲ / ۱۳)
ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ہمارے اسلاف کا تو یہ حال تھا کہ آدمی اپنے دوست کے گھر اس کی غیر موجودگی میں پہنچتا تو اس کی باندی سے اس کا تھیلا طلب کرتا اور جو چاہتا اس میں سے لے لیتا، جب وہ دوست گھر آتا اور باندی اس کو خبر دیتی تو اس خوشی میں وہ باندی کو آزاد کردیتا مگر اس زمانہ میں یہ فیاضی کہاں ؟ لہٰذا اب اجازت کے بغیرنہیں کھانا چاہئے۔( مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۹۱)
{ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا: تم مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ قبیلہ بنی لیث بن عمرو کے لوگ تنہا بغیر مہمان کے کھانا نہ کھاتے تھے کبھی کبھی مہمان نہ ملتا تو صبح سے شام تک کھانا لئے بیٹھے رہتے، ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۴) اور فرمایا گیا کہ تم مل کر کھاؤ یا الگ الگ تم پر کوئی پابندی نہیں ۔
مہمان نوازی سے متعلق دو احادیث:
آیت کے شانِ نزول سے معلوم ہوا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بڑے مہمان نواز ہو اکرتے تھے،اسی مناسبت سے یہاں مہمان نوازی سے متعلق 2 احادیث ملاحظہ ہوں ۔
(1)…حضرت ابو شریح کعبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا اکرام کرے، ایک دن رات اس کا جائزہ ہے (یعنی ایک دن اس کی پوری خاطر داری کرے، اپنے مقدور بھر اس کے لیے تکلف کا کھانا تیار کرائے) اور ضیافت تین دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد جو موجود ہو وہ پیش کرے) اور تین دن کے بعد صدقہ ہے، مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا ر ہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔‘‘( بخاری، کتاب الادب، باب اکرام الضیف وخدمتہ ایّاہ بنفسہ، ۴ / ۱۳۶، الحدیث: ۶۱۳۵)
(2)…حضرت ابو الاحوص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد سے ر وایت کرتے ہیں ، کہتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ فرمائیے کہ میں ایک شخص کے یہاں گیا، اس نے میری مہمانی نہیں کی، اب وہ میرے یہاں آئے تو اس کی مہمانی کروں یا بدلا دوں ۔ ارشاد فرمایا: ’’بلکہ تم اس کی مہمانی کرو۔‘‘( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الاحسان والعفو، ۳ / ۴۰۵، الحدیث: ۲۰۱۳)
مل کر کھانے کے3فضائل:
یہاں آیت میں مل کرکھانا کھانے کا ذکر ہوا اس مناسبت سے مل کر کھانے کے 3فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مل کر کھاؤاورالگ الگ نہ کھاؤ کیونکہ برکت جماعت کے ساتھ ہے۔‘‘( ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، باب الاجتماع علی الطعام، ۴ / ۲۱، الحدیث: ۳۲۸۷)
(2)…ایک مرتبہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے بارگاۂ رسالت میں عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم کھانا تو کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے۔ ارشاد فرمایا: ’’تم الگ الگ کھاتے ہو گے۔‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:جی ہاں !رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم مل بیٹھ کر کھانا کھایا کرو اور کھاتے وقت بِسْمِ اللہ پڑھ لیا کرو تمہارے لئے کھانے میں برکت دی جائے گی۔‘‘( ابو داؤد، کتاب الاطعمۃ، باب فی الاجتماع علی الطعام، ۳ / ۴۸۶، الحدیث: ۳۷۶۴)
(3)…حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند وہ کھانا ہے جسے کھانے والے زیادہ ہوں ۔‘‘( شعب الایمان،الثامن والستون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی التکلّف للضیف عند القدرۃ علیہ، ۷ / ۹۸، الحدیث: ۹۶۲۰)
{فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا: پھر جب گھروں میں داخل ہو۔} ارشاد فرمایا کہ پھر جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو، یہ ملتے وقت کی اچھی دعا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس سے مبارک پاکیزہ کلمہ ہے۔( خازن، النور، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۶۴)
گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل:
یہاں گھر میں داخل ہوتے وقت اہلِ خانہ کو سلام کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل ملاحظہ ہوں :
(1)… جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے اہلِ خانہ کو سلام کرے اور ان لوگوں کو جو مکان میں ہوں بشرطیکہ وہ مسلمان ہوں ۔
(2)… اگر خالی مکان میں داخل ہو جہاں کوئی نہیں ہے تو کہے: ’’ اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ وَرَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہ الصَّالِحِیْنَ اَلسَّلَامُ عَلٰی اَہْلِ الْبَیْتِ وَرَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہٗ ‘‘ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ مکان سے یہاں مسجدیں مُراد ہیں ۔ امام نخعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ جب مسجد میں کوئی نہ ہو تو کہے ’’ اَلسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ۔( الشفا، القسم الثانی، الباب الرابع فی حکم الصلاۃ علیہ، فصل فی الموطن التی یستحبّ فیہا الصلاۃ والسلام۔۔۔ الخ، ص۶۷، الجزء الثانی)
ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شفا شریف کی شرح میں لکھا کہ خالی مکان میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سلام عرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ اسلام کے گھروں میں روحِ اقدس جلوہ فرما ہوتی ہے۔( شرح الشفا، القسم الثانی، الباب الرابع فی حکم الصلاۃ علیہ والتسلیم، فصل فی الموطن التی یستحبّ فیہا الصلاۃ والسلام، ۲ / ۱۱۸)