banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 12 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ(12)

ترجمہ: کنزالایمان وہی ہے کہ تمہیں بجلی دکھاتا ہے ڈر کو اور امید کو اور بھاری بدلیاں اٹھاتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان وہی ہے جو تمہیں بجلی دکھاتا ہے اس حال میں کہ تم ڈرتے ہویا امید کرتے ہو اور وہ بھاری بادل پیدا فرماتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ:وہی ہے جو تمہیں بجلی دکھاتا ہے۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرتوں  میں  سے ایک ایسی چیز کابیان فرمایا ہے کہ جو ایک اعتبار سے نعمت ہے اور ایک اعتبار سے عذاب ہے ۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ رب عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جواپنے بندوں  کو بجلی دکھاتا ہے اس حال میں  کہ بعض لوگ بجلی گرنے سے ڈر رہے ہوتے ہیں  اور بعض لوگ بارش کی امید کر رہے ہوتے ہیں ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۵۶، روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۵۲، ملتقطاً)

دل میں  خوف اور امید دونوں  رکھے جائیں :

یاد رہے کہ بارش مقیم اور مسافر دونوں  کے لئے کبھی نقصان کا سبب ہوتی ہے کہ اس سے ان کے مال و اسباب اور ذخیرہ کی ہوئی گندم وغیرہ خراب ہو جاتی ہے اور کبھی فائدے کا باعث ہوتی ہے کہ مسافر کو اپنی ضروریات میں  استعمال کے لئے پانی مل جاتا ہے اور مقیم کی فصلوں  وغیرہ کی نشوونما ہو جاتی ہے اسی طرح بجلی کا چمکنا بھی مقیم اور مسافر دونوں  کے لئے فائدے اور نقصان کا باعث ہوتا ہے لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے دل میں  خوف اور امید دونوں  رکھے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کبھی وہ چیز لاتا ہے کہ جس میں  ظاہری اعتبار سے تو شر ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس میں  بھلائی ہوتی ہے اور کبھی وہ چیز لاتا ہے کہ جس میں  ظاہری اعتبار سے تو بھلائی ہوتی ہے لیکن درحقیقت اس میں  شر ہوتا ہے۔(صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۹۹۵، ملخصاً)

امید اور خوف کی حقیقت:

اگر مستقبل میں  کسی چیز کے پائے جانے کا احتمال ہے اور وہ دل پر غالب ہے تو اسے انتظار اور توقُّع کہتے ہیں  اور جس کا انتظار ہے اگر وہ ایسی ناپسندیدہ ہے جس سے دل میں  دکھ اور تکلیف پیدا ہوتی ہے تو اسے خوف کہتے ہیں  اور جس کا انتظار ہے اگر وہ پسندیدہ ہے اور دل کا اس سے تعلق پیدا ہوچکا ہے اور اس سے دل کو لذت و آرام پہنچ رہا ہے تو اسے رَجا یعنی امید کہتے ہیں  تو گویا کہ امید دل کی راحت کانام ہے جو محبوب چیز کے انتظار سے حاصل ہوتی ہے، لیکن یہ محبوب چیز جس کی توقع کی جا رہی ہے اس کا کوئی سبب ہونا چاہئے ، اب اگر اس کا انتظار اکثر اسباب کے ساتھ ہے تو اس پرامید کا لفظ صادق آتا ہے اور اگر اسباب بالکل نہ ہوں  یا اِضطراب کے ساتھ ہوں  توامید کے مقابلے میں  اس پر دھوکے کا لفظ زیادہ صادق آتا ہے اور اگر اسباب کا وجود بھی معلوم نہ ہو اور ان کی نفی کا علم بھی نہ ہو تو اس کے انتظار پر تمنا کا نام زیادہ صادق آتا ہے کیوں  کہ یہ انتظار کسی سبب کے بغیر ہے الغرض کوئی بھی حالت ہو امیداور خوف کانام اسی پر صادق آتا ہے جس میں  تَرَدُّد ہو اور جس کے بارے میں  یقین ہو اس پر صادق نہیں  آتا کیوں  کہ طلوعِ آفتاب کے وقت نہیں  کہا جاتا کہ مجھے طلوعِ آفتاب کی امید ہے اورغروب کے وقت یہ نہیں  کہا جاتا کہ مجھے غروبِ آفتاب کا خوف ہے کیوں  کہ یہ دونوں  باتیں  قطعی ہیں۔( احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، ۴ / ۱۷۴-۱۷۵)

مغفرت کی امید کی حقیقت:

امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’اَربابِ قلوب جانتے ہیں  کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دل زمین کی طرح ہے، ایمان اس میں  بیج کی حیثیت رکھتا ہے اور عبادات زمین کو الٹ پلٹ کرنے، صاف کرنے ، نہریں  کھودنے اور ان (زمینوں ) کی طرف پانی جاری کرنے کی طرح ہیں  اور وہ دل جو دنیا میں  غرق اور ڈوبا ہوا ہے اُس بنجر زمین کی طرح ہے جس میں  بیج پھل نہیں  لاتا اور قیامت کا دن فصل کاٹنے کا دن ہے اور ہر شخص وہی کچھ کاٹے گا جو اس نے بویا ہوگا ۔ ۔ ۔تو مناسب یہی ہے کہ بندے کی امید ِمغفرت کو کھیتی والے پر قیاس کیا جائے کہ جو شخص اچھی زمین حاصل کرتا ہے اور اس میں عمدہ بیج ڈالتا ہے جو نہ تو خراب ہوتا ہے اور نہ ہی بدبودار، اور پھر اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے اور وہ وقت پر پانی دینا پھر زمین کو کانٹوں  اور گھاس پھونس نیز ان تمام خرابیوں  سے پاک کرنا ہے جو بیج کو بڑھنے سے روکتی یا خراب کر دیتی ہیں ، پھر وہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہوکر بیٹھ جائے کہ وہ زمین کو بجلی کی گرج اور دیگر مُفسد آفات سے بچائے گا یہاں  تک کہ کھیتی اپنی تکمیل کو پہنچ جائے تو اس انتظار کو امید کہتے ہیں ۔ اور اگر سخت زمین میں  بیج ڈالے جو شور زَدہ ہو اور بلندی پر ہو جس تک پانی نہیں  پہنچ سکتا اور بیج کی پرواہ بھی نہ کرے، پھر اس کے کٹنے کا انتظار کرے تو اس انتظار کو امید نہیں  کہتے بلکہ بیوقوفی اور دھوکہ کہتے ہیں  اور اگر اچھی زمین میں  بیج ڈالا لیکن اس میں  پانی نہیں  ہے اب وہ بارش کے انتظار میں  ہے اور یہ ایسا وقت ہے جس میں  عام طور پر بارش نہیں  برستی اور نہ ہی اس میں  کوئی رکاوٹ ہوتی ہے تو اس انتظار کو امید نہیں  بلکہ تمنا کہتے ہیں  تو گویا امید کا لفظ کسی ایسی محبوب چیز کے انتظار پر صادق آتا ہے جس کے لیے وہ تمام اسباب تیار کردیئے گئے جو بندے کے اختیار میں  ہیں  اور صرف وہی اَسباب باقی رہ گئے جو بندے کے اختیار میں  نہیں  ہیں  اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی وجہ سے تمام نقصان دِہ اور فاسد کرنے والے اسباب کھیتی سے دور ہوجاتے ہیں ، پس جب بندہ ایمان کا بیج ڈالتا ہے اور اس کو عبادات کا پانی پلاتا ہے دل کو بد اَخلاقی کے کانٹوں  سے پاک کرتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے فضل کامرتے دم تک منتظر رہتا ہے، حسنِ خاتمہ جو کہ مغفرت تک پہنچاتا ہے اس کا انتظار کرتا ہے تو یہ انتظار حقیقی امید ہے اور یہ ذاتی طور پر قابلِ تعریف ہے اور موت تک اسبابِ ایمان کے مطابق اسبابِ مغفرت کی تکمیل کے لیے قیام اور دوام کا باعث ہے، اور اگر ایمان کے بیج کو عبادات کا پانی نہ دیاجائے یا دل کو برے اَخلاق سے مُلَوَّث چھوڑ دیا جائے اور دنیاوی لذت میں  مُنْہَمِک ہوجائے، پھر مغفرت کا انتظار کرے تو اس کا انتظار ایک بیوقوف اور دھوکے میں  مبتلا شخص کا انتظار ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، ۴ / ۱۷۵)

{وَ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ: اور وہ بھاری بادل پیدا فرماتا ہے۔} اس آیت کا خلاصۂ  کلام یہ ہے کہ پانی سے بوجھل بادلوں  کو پیدا فرمانا بھی اللّٰہ تعالیٰ ہی کی قدرت ہے۔(تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۲۲)