Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rad ≫ ayat 13 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖۚ-وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ وَ هُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِۚ-وَ هُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِﭤ(13)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ:اور گرج اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے۔} گرج یعنی بادل سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اس کے تسبیح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس آواز کا پیدا ہونا خالق، قادر، ہر نقص سے پاک ذات کے وجود کی دلیل ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ رَعد کی تسبیح سے یہ مراد ہے کہ اس آواز کو سن کر اللّٰہ تعالیٰ کے بندے اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔ بعض مفسرین کا قو ل یہ ہے کہ رعد ایک فرشتہ کا نام ہے جو بادل پرما مور ہے، وہ اس کو چلاتا ہے اور بادل سے جو آواز سنی جاتی ہے وہ رعد نامی فرشتے کی تسبیح ہے ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۵۶، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۵۵۲، ملتقطاً)
گرج کی آواز سن کرکئے جانے والے عمل:
یاد رہے کہ گرج اور کڑک کی آواز اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وعید ہے لہٰذا جب اس کی آواز سنیں تو اپنی دنیوی گفتگو روک کر اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جائیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے اس کی پناہ مانگیں ، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جب گرج کی آواز سنتے تو آپ گفتگو چھوڑ کر یہ آیت پڑھتے ’’وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ‘‘پھر فرماتے: بے شک یہ زمین والوں کے لئے شدید وعید ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی، کتاب صلاۃ الاستسقاء، باب ما یقول اذا سمع الرعد، ۳ / ۵۰۵، الحدیث: ۶۴۷۱)
حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،جب نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گرج اور کڑک کی آواز سنتے تو یہ دعا مانگتے ’’اَللّٰہُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ‘‘ یعنی اے اللّٰہ ! ہمیں اپنے غضب سے نہ مارنا اور اپنے عذاب سے ہلاک نہ کرنا اور ہمیں اپنا عذاب نازل ہونے سے پہلے عافیت عطا فرما۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما یقول اذا سمع الرعد، ۵ / ۲۸۰، الحدیث: ۳۴۶۱)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب تم گرج کی آواز سنو تو اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنا شروع کر دو کیونکہ یہ ذکر کرنے والے کو نہیں پہنچتی۔ (معجم الکبیر، عطاء عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۳۲، الحدیث: ۱۱۳۷۱)
{وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ:اور فرشتے اس کے ڈر سے۔} اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بادلوں پر مامو ر فرشتے کے مددگار ہیں یا اس سے تمام ملائکہ مراد ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال سے اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔ (جلالین مع صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۹۹۵)
{وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ:اور وہ کڑک بھیجتا ہے۔} صَاعِقَہْ اس شدید آواز کو کہتے ہیں جو آسمان وزمین کے درمیان سے اترتی ہے، پھر اس میں آگ پیدا ہوجاتی ہے یا عذاب یا موت اور وہ شدید آواز اپنی ذات میں ایک ہی چیز ہے اور یہ تینوں چیزیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں ۔ شانِ نزول:حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرب کے ایک نہایت سرکش کافر کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے اپنے چند صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بھیجا، انہوں نے اس کافر کو دعوت دی تو وہ کہنے لگا ’’محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا رب کون ہے جس کی تم مجھے دعوت دیتے ہو۔ کیا وہ سونے کا ہے یا چاندی کا ، لوہے کا ہے یا تانبے کا؟ مسلمانوں کو یہ بات بہت گراں گزری اور انہوں نے واپس آکرحضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ ایسا بڑا کافر، سیاہ دل اور سرکش دیکھنے میں نہیں آیا۔ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اس کے پاس پھر جاؤ۔ اس نے پھر وہی گفتگو کی اور اتنا مزید کہا کہ کیا محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی دعوت قبول کرکے میں ایسے رب کو مان لوں جسے نہ میں نے دیکھا نہ پہچانا ؟یہ حضرات پھر واپس ہوئے اور انہوں نے عرض کی کہ حضور! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس کی خباثت تو اور ترقی پر ہے۔ ارشاد فرمایا ’’ پھر جاؤ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پھر گئے ،جس وقت اس سے گفتگو کررہے تھے اور وہ ایسی ہی سیاہ دلی کی باتیں بک رہا تھا تو ایک بادل آیا، اس سے بجلی چمکی اور کڑک پیدا ہوئی ، کچھ دیر بعد بجلی گری اور اس کافر کو جلا دیا۔ یہ حضرات اس کے پاس بیٹھے رہے اور جب وہاں سے واپس ہوئے تو راستے میں انہیں صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک اور جماعت ملی ،وہ کہنے لگے’’کہیے ،وہ شخص جل گیا ؟ان حضرات نے کہا ’’آپ لوگوں کو کیسے معلوم ہوگیا ؟انہوں نے فرمایا ’’ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس وحی آئی ہے۔ ’’وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ وَ هُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِ‘‘(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۵۷)
بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ یہ آیت عامر بن طفیل اور اَرْبَد بن ربیعہ کے بارے میں نازل ہوئی ۔عامر بن طفیل نے اربد بن ربیعہ سے کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کے پاس چلو، میں انہیں باتوں میں لگاؤں گا اور تم پیچھے سے تلوار سے حملہ کر دینا ۔یہ مشورہ کرکے وہ حضوراقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آئے اور عامر نے حضورِ انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو شروع کی، بہت طویل گفتگو کے بعد کہنے لگا کہ اب ہم جاتے ہیں اور ایک لشکرِ جَرار آپ پر لائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ چلا آیا اور باہر آکر اربد سے کہنے لگا کہ تو نے تلوار کیوں نہیں ماری ؟اُس نے کہا جب میں تلوار مارنے کا ارادہ کرتا تھا تو تو درمیان میں آجاتا تھا۔ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان لوگوں کے نکلتے وقت یہ دعا فرمائی ۔ ’’اَللّٰھُمَّ اکْفِہِمَا بِمَا شِئْتَ ‘‘ جب یہ دونوں مدینہ شریف سے باہر آئے تو اُن پر بجلی گری، اربد جل گیا اور عامر بھی اسی راہ میں بہت بدتر حالت میں مرا ۔(ابو سعود، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۵۳، ملتقطاً)