banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 17 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًاؕ-وَ مِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗؕ-كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ ﱟ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءًۚ-وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِؕ-كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَﭤ(17)

ترجمہ: کنزالایمان اس نے آسمان سے پانی اتارا تو نالے اپنے اپنے لائق بہہ نکلے تو پانی کی رو اس پر ابھرے ہوئے جھاگ اٹھا لائی اور جس پر آگ دہکاتے ہیں گہنا یا اور اسباب بنانے کو اس سے بھی ویسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں اللہ بتاتا ہے کہ حق اور باطل کی یہی مثال ہے تو جھاگ تو پُھک کر دور ہوجاتا ہے اور وہ جو لوگوں کے کام آئے زمین میں رہتا ہے اللہ یوں ہی مثالیں بیان فرماتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اس نے آسمان سے پانی اتارا تو نالے اپنی اپنی گنجائش کی بقدر بہہ نکلے تو پانی کی رَو اُس پر ابھرےہوئے جھاگ اٹھا لائی اور زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کیلئے جس پروہ آگ دہکاتے ہیں اس سے بھی ویسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں ۔ اللہ اسی طرح حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے تو جھاگ تو ضائع ہوجاتا ہے اور وہ (پانی) جو لوگوں کو فائدہ دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے ۔اللہ یوں ہی مثالیں بیان فرماتا ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً:اس نے آسمان سے پانی اتارا۔} اس سے پہلی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے مومن اور کافر کو آنکھ والے اور اندھے سے ،ایمان ا ور کفر کو روشنی اور اندھیرے سے تشبیہ دی تھی جبکہ اس آیت میں  ایمان اور کفر کی ایک اور مثال بیان فرمائی ہے۔ (تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۷، ۷ / ۲۹) اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ باطل اس جھاگ کی طرح ہوتا ہے جو ندیوں  میں  ان کی وسعت کے مطابق بہتے پانی کی سطح پر اور سونا، چاندی ،تانبہ،پیتل وغیرہ پگھلی ہوئی معدنیات کی مائع سطح پر ظاہر ہوتی ہے جبکہ حق جھاگ کے علاوہ باقی بچ جانے والی اصل چیز کی طرح ہوتا ہے تو جس طرح بہتے پانی یا پگھلی ہوئی معدنیات کی سطح پرجھاگ ظاہر ہوکر جلدی زائل ہو جاتی ہے ایسے ہی باطل اگرچہ کتنا ہی ابھر جائے اور بعض حالتوں  اور وقتوں  میں  جھاگ کی طرح حد سے اُونچا ہوجائے لیکن انجام کار مٹ جاتا ہے اور حق اصل چیز اور صاف جوہر کی طرح باقی و ثابت رہتا ہے۔( مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۵۵۴، ملخصاً)

             امام فخر الدین رازی  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت میں  مذکور مثال کی بہت اچھی وضاحت فرمائی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اس آیت میں  پانی سے مراد قرآن پاک اور ندیوں  سے مراد بندوں  کے دل ہیں  یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کبریائی ، جلالت اور احسان کے آسمان سے رحمت کاپانی یعنی قرآن پاک بندوں  کے دلوں  کی ندیوں  میں  نازل فرمایا تو جس طرح ندیوں  میں  پانی جگہ پاتا ہے اسی طرح دلوں  میں  قرآنی علوم کے انوار جگہ پاتے ہیں  اور جس طرح ندیوں  میں  ان کی گنجائش اور وسعت کے اعتبار سے پانی کم یا زیادہ ہوتا ہے اسی طرح دلوں  کی پاکیزگی اور نجاست،قوت ِفہم کی زیادتی اور کمی کے اعتبار سے ان میں  قرآن پاک کے انوار کم اور زیادہ ہوتے ہیں  ۔اور جس طرح بہتے پانی کی سطح پر ابھرنے والی جھاگ اور پگھلی ہوئی معدنیات کی سطح پر ظاہر ہونے والا میل کچیل جلدی زائل ہو جاتا ہے اسی طرح قرآن مجید کے مَضامین میں  بظاہر جو شکوک و شبہات ہوتے ہیں  وہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشادات اور علمائے کرام کے بیانات سے جلدی زائل ہو جاتے ہیں  اور عقائد،شرعی احکام کی تصریحات،ہدایات اور علمی نِکات باقی رہ جاتے ہیں ۔ (تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۱۷، ۷ / ۲۹، ملخصاً)