banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 18 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰىﳳ-وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهٗ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ ﳔ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ(18)

ترجمہ: کنزالایمان جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا انہیں کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا اگر زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور ان کی مِلک میں ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کو دے دیتے یہی ہیں جن کا برا حساب ہوگا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور کیا ہی برا بچھونا۔ ترجمہ: کنزالعرفان جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا انہیں کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا (ان کا حال یہ ہوگا کہ) اگر زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور اِس کے ساتھ ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کو دے دیتے۔ ان کے لئے برا حساب ہوگا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى:جن لوگوں  نے اپنے رب کا حکم مانا انہیں  کے لیے بھلائی ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن لوگوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے تو انہیں  کے لئے بھلائی یعنی جنت ہے اور جو لوگ اپنے کفر و شرک پر قائم رہے، ان کا حال یہ ہو گا کہ یہ اس قدر خوفناک اور تکلیف دِہ حالت میں  ہوں  گے کہ اس سے جان چھڑانے کیلئے اگر زمین میں  جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور اس کے ساتھ ہوتا تو قیامت کے دن جہنم کے عذاب سے اپنی جانوں  کو بچانے کے لئے فدیے کے طور پر دیدیتے لیکن ان کی جان پھر بھی نہ چھوٹتی۔

حساب کی سختی کا خوف:

             اس آیت میں  اگرچہ کفار کے حساب میں  سختی کئے جانے کا ذکر ہے لیکن جداگانہ طور پر مسلمانوں  کو بھی حساب کی سختی کے معاملے میں  ڈرایا گیا ہے ، حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ۔حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس سے قیامت کے دن حساب لیا گیا وہ عذاب میں  مبتلا ہو گیا۔ میں  نے عرض کی ’’کیا اللّٰہ تعالیٰ نے یہ نہیں  فرمایا کہ عنقریب ان سے آسان حساب لیا جائے گا(یعنی مُطلقاً حساب پر تو پکڑ نہیں  ہوگی بلکہ سخت حساب کی صورت میں  ہوگی اس پر) رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ (نرمی سے لیا جانے والا حساب حقیقت میں ) حساب نہیں  ہے بلکہ حساب کے لئے پیش ہونا ہے، (اور) جس سے قیامت کے دن حساب میں(جَرح و اعتراض کے ساتھ) سوال و کلام کیا گیا تو اسے عذاب دیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب اثبات الحساب، ص۱۵۳۷، الحدیث: ۷۹(۲۸۷۶))

             حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’ میں  نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی بعض نمازوں  میں  فرماتے ہوئے سنا ’’اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا‘‘ اے اللّٰہ ! مجھ سے آسان حساب لے ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تومیں  نے عرض کی’’یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آسان حساب کیا چیز ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’آسان حساب یہ ہے کہ اس کے نامۂ اعمال پر نظر کرا دی جائے پھر اسے معافی دیدی جائے۔ اے عائشہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا، جس سے حساب میں  اس دن جرح کرلی گئی وہ ہلاک ہوجائے گا۔ (مسند امام احمد، مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا، ۹ / ۳۰۳، الحدیث: ۲۴۲۷۰)

            لہٰذا ہمیں  بھی اپنے حساب کے بارے میں  فکر کرنی چاہئے اور ایسے اعمال اختیار کرنے چاہئیں  جن کی برکت سے اللّٰہ تعالیٰ حساب میں  آسانی فرماتا ہے، ترغیب کے لئے ایک روایت ذکر کی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین اوصاف جس شخص میں  ہوں  گے اللّٰہ تعالیٰ اس کے حساب میں  آسانی فرمائے گا اور اپنی رحمت سے اسے جنت میں  داخل فرما دے گا۔صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی’’یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہمارے ماں  باپ آپ پر فدا ہوں ، وہ کون سے اوصاف ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’جو تمہیں  محروم کرے تم اسے عطا کرو، جوتم سے رشتہ داری ختم کرے تم اس سے صلہ رحمی کرو اورجو تم پر ظلم کرے تم ا سے معاف کردو ۔جب تم ایسا کرو گے تو اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تمہیں  جنت میں  داخل فرما دے گا۔ (مسند البزار، مسند ابی ہریرۃ، ۱۵ / ۲۱۹، الحدیث: ۸۶۳۵)

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنے حساب کی فکر کرنے اور نیک اعمال میں  مصروف رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔