banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 22 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ(22)

ترجمہ: کنزالایمان اور وہ جنہوں نے صبر کیا اپنے رب کی رضا چاہنے کو اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دیئے سے ہماری راہ میں چھپے اور ظاہر کچھ خرچ کیا اور برائی کے بدلے بھلائی کرکے ٹالتے ہیں انہیں کے لیے پچھلے گھر کا نفع ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور وہ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں انہیں کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا:اور وہ جنہوں  نے صبر کیا ۔} یعنی نیکیوں  اور مصیبتوں  پر صبر کیا اور گناہوں  سے باز رہے۔

صبر کے 3 مراتب:

            علامہ صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’ ’صبر کے تین مرتبے ہیں ۔ (1)گناہ سے صبر کرنا یعنی گناہ سے بچنا۔ (2) نیکیوں  پر صبرکرنا یعنی اپنی طاقت کے مطابق ہمیشہ نیک اعمال کرنا۔ (3) مصیبتوں  پر صبر کرنا۔ ان سب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ شہوات یعنی نفسانی خواہشات سے صبر کرنا کیونکہ یہ اولیاء اور صدیقین کا مرتبہ ہے۔ (جلالین مع صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۱۰۰۱)

صبر کی اَقسام:

            آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں صبر کرنے کی قید لگائی گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ صبر کی دوقسمیں  ہیں۔

(1)…مذموم صبر۔ انسان کبھی صبر اس لئے کرتا ہے تاکہ اس کے بارے میں  کہا جائے کہ مصیبتیں  برداشت کرنے پر اس کا صبر کتنا کامل اور مضبوط ہے اور کبھی ا س لئے صبر کرتا ہے تاکہ لوگ بے صبری کا مظاہرہ کرنے پر اسے ملامت نہ کریں  اور دشمن ا س کی بے صبری پر نہ ہنسیں ۔ ان تمام اُمور میں  اگرچہ ظاہری طور پر صبر ہی کیا جارہا ہے لیکن یہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں  نہیں  بلکہ غیرُ اللّٰہ کے لئے کیا گیا ہے،اس لئے یہ صبر مذموم ہیں  اور اس آیت کے تحت داخل نہیں ۔

(2)…قابل تعریف صبر۔ یہ وہ صبر ہے کہ جو انسان اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرے اور جو مصیبتیں  نازل ہوئیں  ان پر صبر کرنے کا اجر و ثواب اللّٰہ تعالیٰ ہی سے طلب کرے۔ یہی صبر ا س آیت کے تحت داخل ہے یعنی انہوں  نے نازل ہونے والی مصیبتوں  پر اللّٰہ تعالیٰ کی تعظیم کی وجہ سے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے صبر کیا۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۶۳)

 رضائے الہٰی کے لئے صبر کرنے کی فضیلت:

            اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے صبر کرنے کی بہت فضیلت ہے، اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ (البقرہ:۱۵۵ ،۱۵۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور صبر کرنے والوں  کوخوشخبری سنا دو۔وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں  : ہم اللّٰہ ہی کے ہیں  اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’جب میں  اپنے کسی بندے کو دو محبوب چیزوں  (یعنی آنکھوں ) کے ذریعے آزماتا ہوں ، پھر وہ صبر کرے توان کے بدلے میں  اسے جنت دیتا ہوں ۔(بخاری، کتاب المرضی، باب فضل من ذہب بصرہ، ۴ / ۶، الحدیث: ۵۶۵۳)

سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر مخلوق کو جمع فرمائے گا تو ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا کہ فضیلت والے کہاں  ہیں ؟ کچھ لوگ کھڑے ہوں  گے اور جلدی جلدی جنت کی طرف چلنا شروع کر دیں  گے۔ فرشتے ان سے ملاقات کر کے دریافت کریں  گے ’’ہم تمہیں  جنت کی طرف تیزی سے جاتا ہو ادیکھ رہے ہیں ، تم کون ہو؟ وہ کہیں  گے ’’ہم فضیلت والے ہیں ؟فرشتے کہیں  گے ’’تمہاری فضیلت کیا ہے؟ وہ کہیں  گے ’’ہم پر جب ظلم کیا جاتا تو ہم صبر کرتے تھے، جب ہم سے برا سلوک کیا جاتا تو ہم درگزر کرتے تھے۔ جب ہم سے جہالت کا برتاؤ کیا جاتا تو ہم برداشت کرتے تھے۔ فرشتے کہیں  گے ’’جنت میں  داخل ہو جاؤ کہ عمل کرنے والوں  کا اجر بہت اچھا ہے۔ پھر اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا کہ صبر کرنے والے کہاں  ہیں ؟ کچھ لوگ کھڑے ہوں  گے اور جلدی جلدی جنت کی طرف چلنا شروع کر دیں  گے۔ فرشتے ان سے ملاقات کر کے دریافت کریں  گے ’’ہم تمہیں  جنت کی طرف تیزی سے جاتا ہو ادیکھ رہے ہیں ، تم کون ہو؟ وہ کہیں  گے ’’ہم صبر کرنے والے ہیں ۔ فرشتے پوچھیں  گے ’’تمہارا صبر کیا تھا؟ وہ کہیں  گے ’’ہم اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے پر اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے صبر کیا کرتے تھے ۔ فرشتے کہیں  گے ’’جنت میں  داخل ہو جاؤ کہ عمل کرنے والوں  کا اجر بہت اچھا ہے۔ (المطالب العالیہ، کتاب الفتن، باب شفاعۃ المؤمنین، ۸ / ۷۰۲، الحدیث: ۴۵۷۸)

{وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ:اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں  سے ہماری راہ میں  خرچ کیا ۔} حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’اس سے مراد فرض زکوٰۃ دینا ہے۔ اگر زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی تہمت لگنے کا اندیشہ نہ ہو تو چھپا کر زکوٰۃ ادا کرنا بہتر ہے اور اگر زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی تہمت لگنے کا اندیشہ ہو تو بہتر یہ کہ اعلانیہ زکوٰۃ ادا کرے۔ ایک قول یہ ہے کہ چھپا کر زکوٰۃ دینے سے مراد وہ ہے جو اپنی ذاتی نکال رہا ہے اور اعلانیہ دینے سے مراد وہ ہے جوبادشاہ کو دے رہا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ چھپا کر دینے سے مراد نفلی صدقات ہیں  اور اعلانیہ دینے سے مراد فرض زکوٰۃ ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۶۳)

راہِ خدا میں  خرچ کرنے سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو:

اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے خرچ کرنے کی نسبت لوگوں  کی طرف اور رزق دینے کی نسبت اپنی ذات کی طرف فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا میں  اس کے وکیل ہیں  اور اس عطا میں  تَصَرُّف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اس لئے انہیں  چاہئے کہ خرچ کرنے میں  اپنی ذات یا مخلوق کا لحاظ نہ رکھیں  بلکہ وکیل بنانے والی ذات رب تعالیٰ کی رضا کا لحاظ رکھیں  اور لوگوں  کی طرف سے شکریے اور تعریف کا لالچ نہ رکھیں  بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملنے کی امید رکھیں۔

{وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ:اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں ۔} یعنی برائی کو بھلائی سے ٹالتے ہیں اور بدکلامی کا جواب شیریں  سُخنی سے دیتے ہیں  اور جو انہیں  محروم کرتا ہے اس پر عطا کرتے ہیں  جب اُن پر ظلم کیا جاتا ہے تو معاف کرتے ہیں ، جب اُن سے تعلق توڑا جاتا ہے تو ملاتے ہیں  اور جب گناہ کربیٹھیں  تو توبہ کرتے ہیں ، جب ناجائز کام دیکھتے ہیں  تو اُسے بدل دیتے ہیں  ،جہل کے بدلے حِلم اور ایذا کے بدلے صبر کرتے ہیں ۔ (مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۵۵۶)سُبْحَانَ اللّٰہ! یہ کتنے پیارے اوصاف ہیں ،دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو یہ اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

{اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ:انہیں  کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔} یعنی جو یہ نیک اعمال بجا لائے گا اس کے لئے آخرت کا اچھا انجام یعنی جنت ہے۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۶۴)