banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 21 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِﭤ(21)

ترجمہ: کنزالایمان اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے اور حساب کی بُرائی سے اندیشہ رکھتے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور وہ جواسے جوڑتے ہیں جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب سے خوفزدہ ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ:اور وہ جو جوڑتے ہیں ۔}  اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی تمام کتابوں  اور اس کے کل رسولوں  پر ایمان لاتے ہیں  ،بعض کو مان کر اور بعض سے منکر ہو کر ان میں  تفریق نہیں  کرتے ۔یا یہ معنی ہے کہ رشتہ داری کے حقوق کی رعایت رکھتے ہیں  اور رشتہ داری نہیں  توڑتے۔ اسی میں  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قرابتیں  اور ایمانی قرابتیں  بھی داخل ہیں  ۔ سادات کرام کا احترام ،مسلمانوں  کے ساتھ محبت واحسان، ان کی مدد کرنا، اُن کی طرف سے مُدافَعت کرنا، اُن کے ساتھ شفقت سے پیش آنا، سلام اور دعا کرنا، مسلمان مریضوں  کی عیادت کرنا، اپنے دوستوں ، خادموں  ہمسایوں  اورسفر کے ساتھیوں  کے حقوق کی رعایت کرنا بھی اس میں  داخل ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۶۲-۶۳، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۵۵۶، ملتقطاً)

صلہ رحمی اور حسنِ سلوک سے متعلق اَحادیث:

             آیت کی تفسیر کی مناسبت سے ترغیب کے لئے چند اَحادیث یہاں  بیان کی جاتی ہیں ۔

(1)…حضرت جُبَیر بن مُطْعَم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رشتہ داری توڑنے والا جنت میں  نہیں  جائے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب اثم القاطع، ۴ / ۹۷، الحدیث: ۵۹۸۴)

(2)… حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اس کا رزق فراخ ہو اور اس کی عمر دراز ہو جائے تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کیا کرے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب من بسط لہ فی الرزق بصلۃ الرحم، ۴ / ۹۷، الحدیث: ۵۹۸۵)

(3)… حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بدلہ لینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں  بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے جوڑے۔(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافیئ، ۴ / ۹۸، الحدیث: ۵۹۹۱)

(4)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’و ہ ہم میں  سے نہیں  جو ہمارے چھوٹوں  پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں  کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں  کا حکم نہ کرے اور بری باتوں  سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان، ۳ / ۳۶۹، الحدیث: ۱۹۲۸)

(5)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں  میں  وہ بہتر ہے، جو اپنے ساتھی کا خیر خواہ ہو اور پڑوسیوں  میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک وہ بہتر ہے، جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔(ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی حقّ الجوار، ۳ / ۳۷۹، الحدیث: ۱۹۵۱)

(6)… حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ظالم کے حوالے کرے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں  رہتا ہے تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کی حاجت روائی میں  رہتا ہے ۔ جو شخص مسلمان سے کسی ایک تکلیف کو دور کردے تو اللّٰہ تعالیٰ قیامت کی تکالیف میں  سے ا س کی ایک تکلیف دور کردے گا ۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)

(7)…حضرت معاذ بن انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی منافق کے مقابلے میں  مومن کی حمایت کی تو اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی حمایت میں  ایک فرشتہ کھڑ ا کرے گا جو اسے دوزخ کی آگ سے بچائے گا اور جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام لگائے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جہنم کے پل پر روک لے گا یہاں  تک کہ وہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ،  ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۳)

{وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ:اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔}یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے اور صلہ رحمی وغیرہ جن چیزوں  کا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے انہیں  بجا لانے کے ساتھ ساتھ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے بھی ہوں ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۶۳)

خوفِ خدا کے فضائل:

            قرآن و حدیث میں  اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے کے فضائل بکثرت بیان کئے گئے ہیں ۔ترغیب کے لئے چند آیات اور اَحادیث بیان کی جاتی ہیں ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ‘‘ (رحمٰن: ۴۶)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں  ہیں ۔

            ایک مقام پر ارشاد فرمایا

’’وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘ (الز خرف:۳۵)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور آخرت تمہارے رب کے پا س پرہیزگاروں  کے لیے ہے۔

            ایک جگہ ارشاد فرمایا

’’ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ‘‘ (الحجر:۴۵)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: بیشک ڈر نے والے باغوں  اور چشموں  میں  ہوں  گے۔

            حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس مومن بندے کی آنکھوں  سے اللّٰہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے آنسو نکلیں  اگرچہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہوں  ، پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آ جائیں  تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(ابن ماجہ، الزہد، باب الحزن والبکاء ،۴ / ۴۶۷، الحدیث: ۴۱۹۷)

            حضرت عباس بن عبد المطلب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے بندے کا بدن لرزنے لگے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں  جیسے سوکھے ہوئے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں(شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۹۱، الحدیث: ۸۰۳)۔ ([1])

{وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ:اور برے حساب سے خوفزدہ ہیں ۔} یعنی خصوصی طور برے حساب سے خوفزدہ ہیں  اور حساب کا وقت آنے سے پہلے خود اپنے نفسوں  سے محاسبہ کرتے ہیں ۔(مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۵۵۶)

اعمال کا محاسبہ کرنے کی ترغیب:

            عقلمند انسان وہی ہے کہ جواپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہے اور نفس و شیطان کے بہکاوے میں  آ کر اپنے اعمال کے محاسبے سے غافل نہ ہو۔ قرآن و حدیث میں  اپنے اعمال کے محاسبے کی بہت ترغیب دی گئی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ‘‘(الحشر:۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل (قیامت) کے لیے آگے کیا بھیجا ہے ۔

حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عقلمند وہ شخص ہے جو اپنا محاسبہ کرے اورموت کے بعد کے لئے عمل کرے، جبکہ عاجز وہ ہے جو اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا دے اور اللّٰہ تعالیٰ سے امید رکھے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)

             امام ترمذی  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’اس حدیث میں  مذکور الفاظ ’’مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ‘‘ کا مطلب قیامت کے حساب سے پہلے (دنیا ہی میں ) نفس کا محاسبہ کرنا ہے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ اپنے نفسوں  کا محاسبہ کرو ا س سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ۔ قیامت کے دن اس آدمی کا حساب آسان ہو گا جس نے دنیا ہی میں  اپنا حساب کر لیا۔ حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ بندہ اس وقت تک پرہیز گار شمار نہیں  ہوتا جب تک اپنے نفس کا ایسے محاسبہ نہ کرے جیسے اپنے شریک سے کرتا ہے کہ اس نے کہاں  سے کھایا اور کہاں  سے پہنا۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’جس طرح تاجر دنیا میں  ایک ایک پیسے کا حساب کر کے کمی زیادتی کے راستوں  کی حفاظت کرتا ہے حتّٰی کہ اسے اس میں  کچھ بھی نقصان نہیں  ہوتا تو اسے چاہئے کہ نفس کے معمولی سے نقصان اور مکر وفریب سے بھی بچے کیونکہ یہ بڑا دھوکے باز اور مکار ہے لہٰذا پہلے اس سے پورے دن کی گفتگو کا صحیح جواب طلب کرے اور اپنے نفس سے اس بات کا خود حساب لے جس کا قیامت کے دن دوسرے لیں  گے، اسی طرح نظر بلکہ دل کے خیالات اور وسوسوں ، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے ، سونے حتّٰی کہ خاموشی کا حساب بھی لے کہ اس نے خاموشی کیوں  اختیار کی تھی اور سکون کے بارے میں  پوچھ گچھ کرے کہ اس کا کیا مقصد تھا، جب ان تمام باتوں  کا علم ہو جائے جو نفس پر واجب تھیں  اور اس کے نزدیک صحیح طور پر ثابت ہو جائے کہ کس قدر واجب کی ادائیگی ہوئی ہے تو اس قدر کا حساب ہو گیا، اب جو باقی رہ گیا اسے نفس کے ذمہ لکھ لے اور اسے دل کے کاغذ پر بھی لکھ دے جیسے اپنے شریک کے ذمہ باقی حساب کو دل پر بھی لکھتا ہے اور حسابو کتاب کے رجسٹر میں  بھی۔پھر جب نفس قرضدار ٹھہرا تو ممکن ہے کہ اس سے قرض وصول کرے ، کچھ تاوان کے ذریعے، کچھ اس کی واپسی سے اور بعض کے حوالے سے اسے سزا دے اور یہ سب کچھ حساب کی تحقیق کے بعد ہی ممکن ہے تاکہ جس قدر واجب باقی ہے اس کی تمیز ہو سکے اور جب یہ بات معلوم ہو جا ئے تو اب اس سے مطالبہ اور تقاضا کرنا چاہئے اور اسے چاہئے کہ اپنے تمام ظاہری اور باطنی اَعضاء کے حوالے سے اپنے نفس سے ایک ایک دن کی ہر گھڑی کا حساب کرے۔( احیاء علوم الدین، کتاب المراقبۃ والمحاسبۃ، بیان حقیقۃ المحاسبۃ بعد العمل، ۵ / ۱۳۹)

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔


[1] اللّٰہ تعالیٰ کا خوف رکھنے سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’خوف ِخدا‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں ۔