Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rad ≫ ayat 26 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُؕ-وَ فَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ(26)
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ:اللّٰہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل سے بندوں میں سے جسے چاہے وسیع رزق دے کر غنی کر دیتا ہے اور جسے چاہے اس کے رزق میں تنگی فرما کر اسے فقیر بنا دیتا ہے۔( خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۶۵)
رزق میں برابری نہ ہونے کی حکمتیں :
یاد رہے کہ دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسارزق عطا نہیں فرمایا ،بعض لوگ غریب ہیں ،بعض مُتَوسِّط اور بعض امیر، اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں ہیں ، ان میں سے دو حکمتیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں ۔
(1)…اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا
’’وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ‘‘ (الشوری:۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر اللّٰہ اپنے سب بندوں کیلئے رزق وسیع کردیتا تو ضرور زمین میں فساد پھیلاتے لیکن وہ ایک مقدار سے جتنا چاہتا ہے اتارتا ہے ، بیشک وہ بندوں سے خبردار،دیکھنے والاہے۔
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ جن کے ایمان کی بھلائی مالدار ہونے میں ہے، اگر میں انہیں مالدار نہ کروں تو وہ کفر میں مبتلا ہو جائیں گے اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی مالدار نہ ہونے میں ہے، اگر میں انہیں مالدار کر دوں تو وہ کفر میں مبتلا ہو جائیں گے۔ (ابن عساکر، حرف الکاف فی آباء من اسمہ ابراہیم، ابراہیم بن ابی کریمۃ الصیداوی، ۷ / ۹۶)
{وَ فَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:اور کا فر دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے۔} یعنی مشرکین پر جب اللّٰہ تعالیٰ نے رزق وسیع فرمایا تو انہوں نے شر پھیلانا شروع کر دیا اور وہ تکبر میں مبتلا ہو گئے حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک حقیر سی شے ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دُنیوی نعمتوں پر فخریَہ خوش ہونا کفار کا طریقہ ہے اور ناجائز ہے جبکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے شکریہ کے طور پر خوش ہونامومنوں کا طریقہ ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے
’’قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا‘‘ (یونس:۵۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرماؤ: اللّٰہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔
دنیوی اور اُخروی زندگی میں فرق:
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دنیا کی زندگی وہ ہے جواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے غفلت میں گزرے، یہ بری ہے اور قرآن و حدیث میں اسی کی مذمت ہے اور جو زندگی آخرت کی تیار ی میں گزرے وہ بفضلہ تعالیٰ اُخروی زندگی ہے، یہی حیاتِ طیّبہ ہے ۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہر وہ چیز جو آخرت کے اعمال پر مددگار ہو جیسے ضروری غذااور موٹے کپڑوں کا ایک جوڑا اور ہر وہ چیز جس کا انسان کے باقی رہنے اور اس کی صحت کے لئے ہونا ضروری ہے اور اس کے ذریعے وہ علم و عمل تک پہنچتا ہے تو یہ (چیز) دنیا نہیں ہے کیونکہ یہ علم و عمل کے لئے مددگار ہے اور اس کے لئے وسیلہ ہے توانسا ن جب اسے علم و عمل پر مدد حاصل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے تو وہ دنیا کے لئے نہیں لیتا اور نہ ہی وہ اس وجہ سے دنیا دار کہلاتا ہے اور اگر (ان چیزوں سے) محض دنیا کا فوری فائدہ اور لذت مطلوب ہواور تقویٰ پر مدد کاحصول مقصودنہ ہو تو اب (ان چیزوں کا حصول) دنیا میں شمار ہو گا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الدنیا، بیان حقیقۃ الدنیا وماہیتہا فی حق العبد، ۳ / ۲۷۱)
مومن و کافراور فاسق و پرہیز گار کی زندگی میں فرق:
مومن و کافراور فاسق و پرہیز گار کی زندگیوں میں بڑا فرق ہے، بعض لوگ سوتے ہوئے بھی جاگتے ہیں اور بعض جاگتے ہوئے بھی سوتے ہیں ۔ بعض جیتے جی مرے ہوئے ہیں اوربعض مر کر بھی زندہ ہیں ۔