banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 28 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِؕ-اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُﭤ(28)

ترجمہ: کنزالایمان وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان ۔(ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے) جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں ، سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ:سن لو! اللّٰہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں ۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و فضل اور اس کے احسان و کرم کو یاد کرکے بے قرار دلوں  کو قرار اور اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ یونہی اللّٰہ تعالیٰ کی یاد محبت ِ الٰہی اور قرب ِ الٰہی کا عظیم ذریعہ ہے اور یہ چیزیں  بھی دلوں  کے قرار کا سبب ہیں  بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ بھی کہا جائے تو یقینا درست ہوگا کہ ذکرِ الٰہی کی طبعی تاثیر بھی دلوں  کا قرار ہے ، اسی لئے پریشان حال آدمی جب پریشانی میں  اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تواس کے دل کو قرار آنا شروع ہوجاتا ہے ،یونہی قرآن بھی ذِکْرُ اللّٰہ ہے اور اس کے دلائل دلوں  سے شکوک و شبہات دور کرکے چین دیتے ہیں  ، یونہی دعا بھی ذِکْرُ اللّٰہ ہے اور اس سے بھی حاجتمندوں  کو سکون ملتا ہے اور اسمائے الٰہی اور عظمتِ الٰہی کا تذکرہ بھی ذِکْرُ اللّٰہ ہے اور اس سے بھی محبانِ خدا کے دلوں  کو چین ملتا ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے متعلق دو اہم باتیں :

(1)…امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت عثمان مغربی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ان کے ایک مرید نےعرض کی :کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دل کی رغبت کے بغیر بھی میری زبان سے اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا ہے، انہوں  نے فرمایا: یہ بھی تو شکر کا مقام ہے کہ تمہارے ایک عُضْو (یعنی زبان) کو اللّٰہ تعالیٰ نے ذِکر کی توفیق بخشی ہے۔

(2)…جس کا دل اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  نہیں  لگتا اسے بعض اوقات شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ جب تیرا دل اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  نہیں  لگتا تو خاموش ہو جا کہ ایسا ذکر کرنا بے ادبی ہے۔ اس شیطانی وسوسے سے بچنا چاہیے۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس وسوسے کا جواب دینے والے لوگ تین قسم کے ہیں  ۔ ایک قسم ان لوگوں  کی ہے جو ایسے موقع پر شیطان سے کہتے ہیں  :خوب توجہ دلائی، اب میں  تجھے بیزار کرنے کے لئے دل کوبھی حاضر کرتا ہوں ، اس طرح شیطان کے زخموں  پر نمک پاشی ہو جاتی ہے۔ دوسرے وہ احمق ہیں  جو شیطان سے کہتے ہیں : تو نے ٹھیک کہا جب دل ہی حاضر نہیں  تو زبان ہلائے جانے سے کیا فائدہ! اور یوں  وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ یہ نادان سمجھتے ہیں  کہ ہم نے عقلمندی کا کام کیا حالانکہ انہوں  نے شیطان کو اپناہمدرد سمجھ کر دھوکا کھا لیا ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں  جو کہتے ہیں  :اگرچہ ہم دل کو حاضر نہیں  کر سکتے مگر پھر بھی زبان کو اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں  مصروف رکھنا خاموش رہنے سے بہتر ہے، اگرچہ دل لگا کر ذکر کرنا اس طرح کے ذکر سے کہیں  بہتر ہے۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۱)