Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rad ≫ ayat 33 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَفَمَنْ هُوَ قَآىٕمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْۚ-وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَؕ-قُلْ سَمُّوْهُمْؕ-اَمْ تُنَبِّــٴُـوْنَهٗ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِؕ-بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مَكْرُهُمْ وَ صُدُّوْا عَنِ السَّبِیْلِؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(33)
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ هُوَ قَآىٕمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ:تو کیا وہ جو ہر شخص پر اس کے اعمال کی نگرانی رکھتا ہے۔}اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مکہ کے مشرکین کا رد اور انہیں زَجر و توبیخ فرمائی ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ’’اللّٰہ تعالیٰ جو کہ ہر شخص کا محافظ اور اسے رزق دینے والا ہے، اسے جانتا اور ا س کے اچھے برے اعمال کو بھی جانتا ہے، نیکیاں کرنے والے کو ثواب دینے والا اور گناہ کرنے والے کو سزا دینے والا ہے کیا وہ اُن بتوں کی مثل ہوسکتا ہے جو ایسے نہیں ؟بلکہ وہ تو اپنے آپ سے بھی عاجز ہیں اور جو خود سے عاجز ہوں وہ دوسروں کو کیانفع یا نقصان پہنچا سکیں گے ، لہٰذا عبادت کامستحق صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے نہ کہ وہ بت جنہیں مشرکین اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۶۷)
{قُلْ سَمُّوْهُمْ:تم فرماؤ: تم ان کا نام تو لو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں کہ تم جن بتوں کو عبادت کا مستحق ٹھہراتے ہو ان کی حقیقت تو بیان کرو کہ ان کا تعلق کس جنس سے ہے اور وہ کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں ؟ پھرغور کرو کہ کیا وہ عبادت کے لائق ہو سکتے ہیں ؟یقینا نہیں لہٰذا تمہارے اس شرک کا مطلب یہ نکلا کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کو اس کے شریک کی خبر دے رہے ہو حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ زمین میں اپنا کوئی شریک موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسے جانتا ہی نہیں ، اگر اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی شریک ہو سکتا تو اللّٰہ تعالیٰ کواس کا علم ضرور ہوتا کیونکہ اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے اورجو اللّٰہ تعالیٰ کے علم میں نہ ہو وہ محض باطل ہے لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کے لئے شریک ہونا بھی باطل اورغلط ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کے علم کی نفی نہیں کی گئی بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کا شریک ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۶۷-۶۸، صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۱۰۰۷، ملتقطاً)