banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 34 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

لَهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَقُّۚ-وَ مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ(34)

ترجمہ: کنزالایمان انہیں دنیا کے جیتے عذاب ہوگا اور بیشک آخرت کا عذاب سب سے سخت ہے اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان ان کیلئے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے اور آخرت کا عذاب یقینا زیادہ سخت ہے اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:ان کیلئے دنیا کی زندگی میں  عذاب ہے۔} یعنی ان کیلئے دنیا کی زندگی میں قتل اور قید وغیرہ کا عذاب ہے اور آخرت کا عذاب یقینا دنیا کے عذاب کے مقابلے میں  زیادہ سخت ہے اور انہیں اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ۔

جہنم کے عذاب کی سختیاں :

اس آیتِ مبارکہ میں  بیان کی گئی وعید اگرچہ کافروں  کے بارے میں  ہے لیکن اس میں  ان مسلمانوں  کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت سے انتہائی دور اور اس کی نافرمانی میں  بہت مصروف ہیں ، اگر ان کے گناہوں  کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  جہنم میں  ڈال دیا تو ان کا جوحال ہو گا اس کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے، مزید عبرت حاصل کرنے کے لئے عذابِ جہنم کی سختیوں  کے بیان پر مشتمل امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام بغور پڑھئے، چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’اے اپنے نفس سے غافل اور اس فانی اور مٹ جانے والی دنیا پر دھوکہ کھانے والے شخص! اُس چیز کی فکر نہ کر جسے چھوڑ کر جانے والا ہے بلکہ اپنے فکر کی لگام کو اس کی طرف موڑ دے جو تیری منزل ہے ، کیونکہ تجھے بتایا گیا کہ سب لوگوں  کو جہنم پر سے گزرنا پڑے گا، کہا گیا ہے:

’’وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ(۷۱) ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا‘‘(مریم:۷۱، ۷۲)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور تم میں  سے ہرایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے۔یہ تمہارے رب کے ذمہ پر حتمی فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔ پھر ہم ڈر نے والوں  کو بچالیں  گے اور ظالموں  کو اس میں  گھٹنوں  کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں  گے۔

تو تجھے وہاں  جانے کا یقین ہونا چاہئے اور چونکہ نجات کے بارے میں  شک ہے ا س لئے تو اپنے دل میں  اُس مقام کے ہولناک منظر کا شعور بیدار کر کہ شاید تو اس سے نجات کے لیے تیاری کرے ،نیز مخلوق کے حال میں  غور و فکر کر کہ قیامت کے مَصائب میں  سے ان پر جو کچھ گزرا اس کی وجہ سے وہ کَرب اور پریشانیوں  میں  ہوں  گے اور اس بات کے منتظر ہوں  گے کہ انہیں  سفارش کرنے والوں  کی شفاعت کی خبر ملے کہ اچانک مجرموں  کو شاخ در شاخ اندھیرے گھیرلیں  گے اور لپٹ جانے والی آگ ان پر چھا جائے گی ،وہ اس کی آواز اور جھنجھناہٹ سنیں  گے جو اس کے سخت غیظ و غضب پر دلالت کر رہی ہوگی ،اس وقت مجرموں  کو اپنی ہلاکت کا یقین ہوجائے گا اور لوگ گھٹنوں  کے بل گر جائیں  گے حتّٰی کہ جو لوگ بچ جائیں  گے ان کو برے انجام کا خوف ہوگا اور جہنم کے فرشتوں  میں  سے ایک آواز دیتے ہوئے کہے گا: اے فلاں  بن فلاں ! جو دنیا میں  لمبی امید کی وجہ سے ٹال مٹول سے کام لیتا تھا اور تو نے برے اعمال میں  عمر کو ضائع کردیا، پھر وہ لوہے کے گُرز لے کر اس کی طرف دوڑیں  گے اور اس کو طرح طرح کی دھمکیاں  دیں  گے، نیز اسے سخت عذاب کی طرف لے جائیں  گے اور گہرے جہنم میں  اوندھا پھینک دیں  گے، وہ کہیں  گے:

’’ذُقْ ﳐ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْكَرِیْمُ‘‘(دخان:۴۹)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: چکھ۔ تو توبڑا عزت والا، کرم والاہے۔

پس وہ اسے ایسے گھر میں  قید کردیں  گے جس کے کنارے تنگ، راستے تاریک اور مقاماتِ ہلاکت پوشیدہ ہوں  گے ، (کافر) قیدی وہاں  ہمیشہ رہے گا (جبکہ مسلمان قیدی اپنی سزا پوری ہونے تک وہاں  رہے گا) اور اس میں  بھڑکتی ہوئی آگ جلائی جائے گی وہاں  ان کا مشروب کھولتا ہو اپانی اور ٹھکانہ جہنم ہوگا آگ کے فرشتے ان کو گرز ماریں  گے اور آگ ان کو جمع کرے گی ، وہاں  وہ موت کی تمنا کریں  گے لیکن اس سے چھوٹ نہیں  سکیں  گے، ان کے پاؤں  پیشانی کے بالوں  سے بندھے ہوں  گے اور گناہوں  کی تاریکی کے باعث ان کے چہرے سیاہ ہوں  گے وہ ہرکنارے سے پکاریں  گے اور چیخیں  چلائیں  گے اور (جہنم کے فرشتے سے) کہیں  گے اے مالک! ہم سے عذاب کا وعدہ پورا ہوچکا ہے، بیڑیاں  ہم پر بھاری ہوگئی ہیں اے مالک! ہمارے چمڑے پک چکے ہیں ، اے مالک! ہمیں یہاں سے نکالو ہم کبھی بھی گناہ نہیں  کریں  گے۔

            دوزخ کے فرشتے کہیں  گے: نہیں ! امن کے دن چلے گئے، اب ذلت کے گھر سے نکل نہیں  سکتے ،اس میں  پھٹکار کے ساتھ پڑے رہو اور باتیں  نہ کرو اگر تمہیں  یہاں  سے نکال بھی دیا جائے تو جس کام سے تمہیں  روکا گیا تم دوبارہ وہی کام کرو گے، اس وقت وہ نا امید ہوجائیں  گے اور اللّٰہ تعالیٰ کے مقابل جو باتیں  کی ہوں  گی اُن پر اِنہیں  افسوس ہوگا، لیکن اب نہ تو ان کو ندامت نجات دے گی اور نہ ہی افسوس کا کوئی فائدہ ہوگا بلکہ انہیں  طوق پہنا کر چہروں  کے بل اوندھا گرادیا جائے گا،ان کے اوپرنیچے، دائیں  اور بائیں  آگ ہی آگ ہوگی، وہ آگ میں  ڈوبے ہوئے ہوں  گے ،ان کا کھانا آگ، پینا آگ، لباس آگ اور بچھونا آگ ہو گا اور وہ آگ کے ٹکڑوں ، تارکول کے لباس،گرزوں  کے ساتھ مارے جانے اور بھاری بیڑیوں  کے درمیان ہوں  گے ،وہ دوزخ کے تنگ راستوں  میں  چلیں  گے اور جہنم کی سیڑھیوں  سے ہجوم کے ساتھ اتریں  گے اور ان کے اَطراف و جوانب میں  پریشان پھر رہے ہوں  گے، آگ ان پر اس طرح جوش مار رہی ہوگی جس طرح ہنڈیا میں  ابال آتا ہے۔ وہ تباہی اور بربادی کے ساتھ آواز دے رہے ہوں  گے، جب وہ ہلاکت کا لفظ بولیں  گے تو ان کے سروں  پر گرم پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کے پیٹوں  کے اندر کا سب کچھ اور چمڑے پگھل جائیں  گے، ان کے لیے لوہے کے گرز ہوں  گے جن سے ان کی پیشانیاں  چور چور ہوجائیں  گی اور ان کے مونہوں  سے پیپ نکلنے لگے گی۔ پیاس کی وجہ سے جگر پھٹ جائیں  گے اور آنکھوں  کے ڈھیلے چہروں  پر نکل پڑیں  گے اور رخساروں  کے اوپر سے گوشت گرجائے گا اور ان کے اعضا سے چمڑے اور بال بھی سب گرجائیں  گے ،جب ان کے چمڑے پک جائیں  گے تو ان کو دوسرے چمڑوں  سے بدل دیا جائے گا۔ان کی ہڈیاں  گوشت سے خالی ہوجائیں  گی اور اب روحوں  کا مرکز صرف رگیں  اور پٹھے ہوں  گے اور اس آگ کی لپیٹ میں  ان کی آواز آرہی ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ وہ موت کی تمنا کریں  گے لیکن ان کو موت نہیں  آئے گی۔

(اے لوگو! ذرا) سوچو، اگر تم ان کو دیکھو تو تمہاری کیا کیفیت ہو گی حالانکہ ان کے چہرے کوئلے سے بھی زیادہ سیاہ ہوگئے، آنکھوں  کی بینائی چلی گئی اور زبانیں  گُنگ ہوگئیں ، پٹھے اور ہڈیاں  ٹوٹ پھوٹ گئیں  ،کان کٹے ہوئے، چمڑے پھٹے ہوئے ، ہاتھوں  کو گردنوں  سے باندھا ہوا اور پاؤں  کو پیشانیوں  کے ساتھ جمع کیا ہواہوگا ،وہ آگ پر چہروں  کے ساتھ چلتے ہوں  گے اور لوہے کے کانٹے آنکھ کے ڈھیلے سے روندتے ہوں  گے، آگ کا شعلہ ان کے اندر کے اجزا میں  دوڑتا ہوگا اور جہنم کے سانپ اور بچھو ان کے ظاہر اَعضا سے لپٹے ہوں  گے۔ یہ ان کے بعض حالات ہیں ۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی، القول فی صفۃ جہنّم واہوالہا وانکالہا، ۵ / ۲۹۲-۲۹۳)الامان والحفیظ، الامان والحفیظ۔ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں  شفاعت کرنے والوں کے سردار کی شفاعت نصیب فرما اوراپنے حبیب کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امت کے غم میں  بہنے والے آنسوؤں  کے صدقے جہنم کے عذاب سے نجات عطا فرما،اٰمین۔