Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rad ≫ ayat 38 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ-وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ(38)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ: اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے۔ }اس آیت میں کفار کی طرف سے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر کئے گئے اعتراضات کے جواب دئیے گئے ہیں ۔
پہلا اعتراض: اللّٰہ تعالیٰ مخلوق کی طرف جو بھی رسول بھیجے تو اس کا فرشتوں میں سے ہونا ضروری ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے بھی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں سب انسان ہی تھے نہ کہ فرشتے، جب گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انسان ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت پر کوئی اعتراض نہیں تو رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے انسان ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت پر اعتراض کیوں ہے۔
دوسرا اعتراض:اگریہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تو کثیر عورتوں سے نکاح نہ کرتے بلکہ عورتوں سے اِعراض کر کے زُہد کی حالت میں زندگی گزارتے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں ان میں سے اکثر کی کثیر بیویاں اور اولاد تھی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی 300 بیویاں اور 700 باندیاں تھیں ۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی100 بیویاں تھیں ۔ جب بیویوں کی اتنی کثیر تعداد کے باوجود ان کی نبوت میں کوئی فرق نہیں پڑا تو حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چند اَزواجِ مُطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی وجہ سے ان کی نبوت میں کیسے فرق آ سکتا ہے۔
تیسرا اعتراض: اگر یہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو پھر ہم ان سے جو معجزہ بھی طلب کریں تو وہ انہیں دکھانا چاہئے تھا، لہٰذا جب معاملہ ا س کے برخلاف نظر آیا تو ہم نے جان لیا کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول نہیں ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ دلیل دینے اور عذر زائل کرنے کے لئے ایک معجزہ دکھا دینا ہی کافی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ معجزات دکھانا اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر موقوف ہے، اگر وہ چاہے تو زیادہ معجزات ظاہر فرما دے اور چاہے تو ظاہر نہ فرمائے لہٰذا س پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ۔
چوتھا اعتراض: حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کواس بات سے ڈرایا تھا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کفار پرعذاب نازل ہو گا اور مسلمانوں کی مدد کی جائے گی، لیکن جب وہ عذاب مُؤخر ہوا اورا س کی کوئی نشانی کفار کو نظر نہ آئی تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت میں طعن کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر یہ سچے نبی ہوتے تو ان کا جھوٹ ظاہر نہ ہوتا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ کفار پر عذاب نازل ہونا اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کے لئے فتح و نصرت کا ظاہر ہونا اللّٰہ تعالیٰ نے مُعَیَّن اوقات کے ساتھ خاص فرما دیا ہے اور ہر نئے ہونے والے کام کا ایک وقت معین ہے لہٰذا مخصوص وقت آنے سے پہلے وہ نیا کا م ظاہر نہ ہو گا۔ جب اصل بات یہ ہے تو وعیدوں کے مؤخر ہونے کی وجہ سے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کِذب کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟(تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۷ / ۴۹-۵۰، صاوی، الرعد، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۱۰۰۹-۱۰۱۰، ملتقطاً)