banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 41 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَاؕ-وَ اللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖؕ-وَ هُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(41)

ترجمہ: کنزالایمان کیا انہیں نہیں سوجھتا کہ ہم ہر طرف سے ان کی آبادی گھٹاتے آرہے ہیں اور اللہ حکم فرماتا ہے اس کا حکم پیچھے ڈالنے والا کوئی نہیں اور اسے حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیایہ کافر دیکھتے نہیں کہ ہم ہر طرف سے ان کی زمین کم کر رہے ہیں اور اللہ حکم فرماتا ہے، اس کے حکم کو کوئی پیچھے کرنے والا نہیں اور وہ بہت جلد حساب لے لیتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوَ لَمْ یَرَوْا:کیایہ کافر دیکھتے نہیں ۔} یعنی جن کفارِ مکہ نے سرورِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نشانیاں  دکھانے کا مطالبہ کیاہے ، کیا وہ دیکھتے نہیں  ہم ہر طرف سے ان کی آبادیاں  کم کرتے آ رہے ہیں   اور شرک کی زمین کی وسعت مسلسل کم کررہے ہیں  اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے کفار کے گردو پیش کی اَراضی یکے بعد دیگرے فتح ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرماتا ہے اور اُن کے لشکر کو فتح مند کرتا ہے اور اُن کے دین کو غلبہ دیتا ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ   کا حکم نافذ ہے، کسی کی مجال نہیں  کہ اس میں  چوں  چِرا، یا کوئی تبدیلی کرسکے ۔جب وہ اسلا م کو غلبہ دینا اور کفر کو پَست کرنا چاہے تو کس کی تاب و مجال ہے کہ اس کے حکم میں  دخل دے سکے اور وہ جس کا محاسبہ کرنا چاہے تو اس سے بہت جلد حساب لے لیتا ہے۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۷۱-۷۲، مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۵۶۰، ملتقطاً)

اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑنا بربادی کا سبب ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑنا دنیا میں  بھی بربادی لاتا ہے اورنافرمانوں  پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس میں  مسلمانوں  کے لئے بھی بڑی عبرت ہے کہ جب مسلمان اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری پر مضبوطی سے قائم ہوئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  زمین میں  غلبہ و اِقتدار عطا فرمایا اور مسلمان زمین کی وسعتوں  پر چھا گئے اور جب مسلمانوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری سے منہ موڑا تو ان کی آبادیاں  بھی ہر طرف کم ہونے لگ گئیں  اور اسلامی سرزمین کی وسعت رفتہ رفتہ کم ہو نے لگ گئی ،کفار نے مسلمانوں  کی بے عملی، بے اتفاقی اور داخلی اِنتشار واِفتراق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے مفتوحہ علاقے چھین لئے اور وہاں  بسنے والے مسلمانوں  کو دینِ اسلام چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا اور جنہوں  نے دینِ اسلام کو چھوڑنے سے انکار کیا توانہیں  طرح طرح کی اَذِیَّتیں  دے کر شہید کر دیا یا اس سرزمین سے ہی نکال دیا۔ افسوس! آج بھی مسلمان اسی روش پر چلتے اور اپنی سابقہ تاریخ سے عبرت پکڑنےکی بجائے اسے ہی دوبارہ دہراتے نظر آ رہے ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’اس امت میں  پانچ مخصوص لوگوں  کی طرف سے فساد آئے گا۔ (1) علماء۔ (2) مجاہدین۔ (3) زُہاد۔ (4) تُجار۔ (5) حکمران۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں ، زہاد زمین کے ستون ہیں ، مجاہدین زمین میں  اللّٰہ تعالیٰ کے لشکر ہیں ، تجار امت میں  اللّٰہ تعالیٰ کے امین ہیں  اور حکمران چرواہے ہیں  تو جب عالم، دین کو نیچے اور مال کو اوپر رکھے گا تو پھر جاہل کس کی پیروی کرے گا اور جب زاہد، دنیا کی طرف راغب ہوگا تو توبہ کرنے والا کس کی پیروی کرے گا اور جب غازی لالچ میں  پڑ جائے گا تو وہ دشمن پر کامیابی کیسے حاصل کرے گا اور جب تاجر خیانت کرنے لگے گا تو امانت کیسے حاصل ہو گی اور جب چرواہا ہی بھیڑیا بن جائے گا تو چرنے والے کیسے ملیں  گے۔ (روح البیان، الرعد، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۳۸۹)