Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rad ≫ ayat 7 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ(7)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور کا فر کہتے ہیں ۔} یعنی کفارِ مکہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ویسی نشانی کیوں نہیں اتری جیسی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔( ابوسعود، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۴۹)
کافروں کا عناد اور نا انصافی:
کافروں کا یہ قول نہایت بے ایمانی کا قول تھا کیونکہ جتنی آیات نازل ہوچکی تھیں اور جتنے معجزات دکھائے جا چکے تھے سب کو انہوں نے کالعدم قرار دے دیا، یہ انتہا درجہ کی ناانصافی اور حق دشمنی ہے۔ جب دلائل قائم ہوچکیں اور ناقابلِ انکار شواہد پیش کردیئے جائیں اور ایسے دلائل سے مُدّعا ثابت کردیا جائے جس کے جواب سے مخالفین کے تمام اہلِ علم و ہنر عاجز اور حیران رہیں اور انہیں لب ہلانا ،زبان کھولنا محال ہوجائے ،توایسے روشن دلائل ،واضح شواہد اور ظاہر معجزات کودیکھ کر یہ کہہ دینا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی؟ روزِ روشن میں دن کا انکار کردینے سے بھی زیادہ بدتر اور باطل تر ہےاور حقیقت میں یہ حق کو پہچان کر اس سے عناد اور فرار ہے کیونکہ کسی دعوے پر جب مضبوط دلیل قائم ہوجائے پھر اس پر دوبارہ دلیل قائم کرنی ضروری نہیں رہتی اور ایسی حالت میں دلیل طلب کرنا عناد اور مخالفت ہوتا ہے اورجب تک پہلی دلیل کو رد نہ کردیا جائے کوئی شخص دوسری دلیل طلب کرنے کا حق نہیں رکھتا اور اگر یہ سلسلہ قائم کردیا جائے کہ ہر شخص کے لئے نئی دلیل قائم کی جائے جس کو وہ طلب کرے اور وہی نشانی لائی جائے جو وہ مانگے تو نشانیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا، اس لئے اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایسے معجزات دیئے جاتے ہیں جن سے ہر شخص ان کی صداقت اور نبوت کا یقین کرسکے اور بہت سے معجزات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جس میں اُن کی امت اور ان کے زمانے کے لوگ زیادہ مشق و مہارت رکھتے ہیں جیسے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں جادو کا علم اپنے کمال کو پہنچاہوا تھا اور اس زمانے کے لوگ جادو کے بڑے ماہرِ کامل تھے تو حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وہ معجزہ عطا ہوا جس نے جادو کو باطل کردیا اور جادوگروں کو یقین دلا دیا کہ جو کمال حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دکھایا وہ رَبّانی نشان ہے ،جادو سے اس کا مقابلہ ممکن نہیں ۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں طب انتہائی عروج پر تھی اس لئے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شفائے اَمراض اور مردے زندہ کرنے کا وہ معجزہ عطا فرمایا جس سے طب کے ماہرین عاجز ہوگئے اور وہ اس یقین پر مجبور تھے کہ یہ کام طب سے ناممکن ہے ، لہٰذا یقینا یہ قدرتِ الہٰی کازبردست نشان ہے۔ اسی طرح سرکارِ دوعالَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانۂ مبارکہ میں عرب کی فصاحت و بلاغت اَوجِ کمال پرپہنچی ہوئی تھی اور وہ لوگ خوش بیانی میں عالَم پر فائق تھے ،سرورِعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے وہ معجزہ عطا فرمایا جس نے اُنہیں عاجزو حیران کردیا اوراُن کے بڑے سے بڑے لوگ اور اُن کے اہلِ کمال کے گروہ قرآنِ کریم کے مقابل ایک چھوٹی سی عبارت پیش کرنے سے بھی عاجز و قاصر رہے اور قرآن کے اس کمال نے یہ ثابت کردیا کہ بیشک یہ رَبّانی عظیم نشان ہے اور اس کا مثل بنا لا نا بشری قوت کیلئے ممکن نہیں ،اس کے علاوہ اور صدہا معجزات رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیش فرمائے جنہوں نے ہر طبقہ کے انسانوں کو آپ کی رسالت کی صداقت کا یقین دلادیا، ان معجزات کے ہوتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اُتری کس قدر عناد اور حق سے مکرنا ہے۔( تفسیرکبیر، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ۷ / ۱۳، ملخصاً)
{اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ:تم تو ڈر سنانے والے ہو۔} یعنی اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی نبوت کے دلائل پیشکرنے اور اطمینان بخش معجزات دکھا کر اپنی رسالت ثابت کردینے کے بعد احکامِ الہٰیہ پہنچانے اور خدا عَزَّوَجَلَّ کا خوف دلانے کے سوا آپ پر کچھ لازم نہیں اور ہر ہر شخص کے لئے اس کی طلب کردہ جدا جدا نشانیاں پیش کرنا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ضروری نہیں جیسا کہ آپ سے پہلے ہادیوں یعنی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ رہا ہے۔(ابوسعود، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۴۹-۱۵۰، ملخصاً)
{وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ: اور ہر قوم کے ہادی ہو۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں ’’ہادی ‘‘ سے مراد اللّٰہ تعالیٰ ہے ۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی ذمہ داری ڈر سنانا ہے جبکہ ہدایت دینے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے ،وہ جسے چاہے ہدایت عطا فرما دے۔دوسرا قول یہ ہے کہ ’’ہادی‘‘سے مراد رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم تو ڈر سنانے والے ہو اور ہر قوم کے ہادی ہو۔ (خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۵۴)
بعض مفسرین کے نزدیک آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر قوم کے لئے ہادی یعنی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوئے ہیں ،وہ اپنی قوموں کو ان کی من مانی نشانیوں کی بجائے ان نشانیوں کے ساتھ دین کی طرف ہدایت دیتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے جو خصوصی طور پر انہیں عطا ہوئی تھیں ۔(مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۷، ص۵۵۰)