banner image

Home ur Surah Ar Rad ayat 8 Translation Tafsir

اَلرَّعْد

Ar Rad

HR Background

اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُؕ-وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ(8)عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ(9)

ترجمہ: کنزالایمان اللہ جانتا ہے جو کچھ کسی مادہ کے پیٹ میں ہے اور پیٹ جو کچھ گھٹتے اور بڑھتے ہیں اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے۔ ہر چھپے اور کھلے کا جاننے والا سب سے بڑا بلندی والا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اللہ جانتا ہے جو ہرمادہ کے پیٹ میں ہے اور جو پیٹ کم اور زیادہ ہوتے ہیں اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے۔ وہ ہر غیب اور ظاہر کو جاننے والا، سب سے بڑا، بلند شان والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَللّٰهُ یَعْلَمُ:اللّٰہ جانتا ہے ۔}اس سے پہلی آیات میں کفار ِمکہ نے ان نشانیوں  کے علاوہ نشانی طلب کی تھی جو رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں  دکھا چکے تھے چنانچہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اوراس کے کمالِ علم کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کسی مادہ کے پیٹ میں  جو کچھ ہے اللّٰہ تعالیٰ اس کے بارے میں  جانتا ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ ، ایک ہے یا زیادہ اور اس کی تخلیق پوری ہو چکی یا نہیں اور اللّٰہ تعالیٰ یہ بھی جانتا ہے کہ کس کے پیٹ کا بچہ جلدی پیدا ہو گا اور کس کا دیر میں ۔ بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے پیٹ کے گھٹنے بڑھنے سے بچے کا مضبوط ، خِلقت میں پورا اور ناقص ہونا مراد ہے۔(خازن، الرعد، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۵۴)

کیا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے رحم میں  بچے کے بارے میں جاننا قرآن کے خلاف ہے؟

اس کے بارے میں  جاننے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی یہ تحریر انتہائی مفید ہے، چنانچہ ماؤں  کے رحم سے متعلق چند آیات ذکر کرنے کے بعد آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آیاتِ کریمہ میں  مولیٰ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی اپنے بے پایاں  علوم کے بے شمار اقسام سے ایک سہل قسم کابہت اجمالی ذکر فرماتا ہے کہ ہرمادہ کے پیٹ میں  جوکچھ ہے سب کا سارا حال (جیسے) پیٹ رہتے وقت اور اس سے پہلے اور پیدا ہوتے اور پیٹ میں  رہتے اور جو کچھ اس پر گزرا اور گزرنے والا ہے، جتنی عمرپائے گا، جوکچھ کام کرے گا، جب تک پیٹ میں  رہے گا، اس کا اندرونی بیرونی ایک ایک عضو ، ایک ایک پرزہ جوصورت دیا گیا، جو دیا جائے گا ، ہر ہر رونگٹا جو مقدار، مساحت ،وزن پائے گا، بچے کی لاغری، فربہی، غذا، حرکت ِخفیفہ زائدہ، انبساط، انقباض اور زیادت وقلت ِخون، طمث وحصولِ فضلات وہوا و رطوبات وغیرہا کے باعث آن آن پرپیٹ جو سمٹتے پھیلتے ہیں ،غرض ذرہ ذرہ سب اسے معلوم ہے، ان میں  کہیں  نہ تخصیص ذکورت وانوثت کاذکر، نہ مطلق علم کی نفی وحصر، تویہ مہمل ومختل اعتراض پادر ہوا کہ بعض پادریانِ پادر بند ہوا کی تازہ گھڑت ہے۔ اس کااصل منشا معنی آیات میں بے فہمی محض یاحسب ِعادت دیدہ ودانستہ کلامِ الہٰی پرافترا وتہمت ہے۔ قرآنِ عظیم نے کس جگہ فرمایا ہے کہ کوئی کبھی کسی مادہ کے حمل کو کسی طرح تدبیر سے اتنا معلوم نہیں  کرسکتا کہ نرہے یا مادہ، اگر کہیں  ایسا فرمایا ہو تو نشان دو، اور جب یہ نہیں  توبعض وقت بعض اناث کے بعض حمل کابعض حال بعض تدابیر سے بعض اشخاص نے بعد جہل طویل وعجز مدیدبعض آلات بیجان کا فقیر ومحتاج ہوکر اس فانی وزائل وبے حقیقت نام کے ایک ذرہ علم وقدرت سے (کہ وہ بھی اسی بارگاہ علیم وقدیر سے حصہ رسد چندروز سے چندروز کے لئے پائے اورا ب بھی اسی کے قبضہ واقتدار میں  ہیں  کہ بے اس کے کچھ کام نہ دیں ) اگر صحرا سے ذرہ سمندر سے قطرہ معلوم کرلیا تو یہ آیاتِ کریمہ کے کس حرف کا خلاف ہوا؟

وہ خود فرماتاہے:

’’یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ‘‘(بقرہ:۲۵۵)

اللّٰہ جانتاہے جوان کے آگے ہے اورجوکچھ پیچھے اوروہ نہیں  پاتے اس کے علم سے کسی چیزکو مگرجتنی وہ چاہے۔

تمام جہان میں  روزِ اول سے ابدالآباد تک جس نے جوکچھ جانا یا جانے گا سب اسی اِلَّا بِمَاشَآءکے استثناء میں  داخل ہے جس کے لاکھوں  کروڑوں  سربفلک کشیدہ پہاڑوں  سے ایک نہایت قلیل وذلیل وبے مقدار ذرہ یہ آلہ بھی ہے، ایسا ہی اعتراض کرنا ہو تو بے گنتی گزشتہ وآئندہ باتوں  کاجوعلم ہم کو ہے اسی سے کیوں  نہ اعتراض کرے جو صیغہ ’’یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ‘‘میں  ہے کہ اللّٰہ جانتاہے جوکچھ مادہ کے پیٹ میں  ہے بعینہٖ وہی صیغہ’’ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ‘‘میں  ہے کہ اللّٰہ جانتاہے جوکچھ گزرا اورجوکچھ ان کے پیچھے ہے۔ جب ان بے شمار علوم تاریخی وآسمانی ملنے میں  کسی عاقل منصف کے نزدیک اس آیت کاکچھ خلاف نہ ہوا ،نہ تیرہ سوبرس سے آج تک کسی پادری صاحب کوان علوم کے باعث اس آیۃ کریمہ پرلب کشائی کاجنون اچھلا تواب ایک ذرا سی آلیا نکال کر اس آیت کا کیا بگاڑ متصور ہوسکتا ہے، ہاں عقل نہ ہو تو بندہ مجبور ہے یاانصاف نہ ملے تو انکھیارا بھی کور ہے ۔ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمْ۔(فتاویٰ رضویہ، ۲۶ / ۴۷۰-۴۷۱)

نوٹ:علومِ ارحام سے تعلق رکھنے والی آیات سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 26ویں  جلد میں  موجود رسالہ ’’اَلصَّمْصَام عَلٰی مُشَکِّکٍ فِیْ اٰیَۃِ عُلُوْمِ الْاَرْحَام‘‘ (علوم ارحام سے متعلق آیات کی تفسیر)کا مطالعہ فرمائیں ۔

{وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ:اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے۔} یعنی ہر چیز کی ایک مقدار ہے اور کوئی چیز اپنی مقدار سے کم یا زیادہ نہیں  ہوسکتی۔(مدارک، الرعد، تحت الآیۃ: ۸،ص۵۵۱) یہی مضمون قرآنِ پاک کی اور آیات میں  بھی بیان ہوا ہے جیساکہ سورۂ قمر میں  ہے

’’اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ‘‘(قمر:۴۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔

اور سورہ ٔفرقان میں  ہے

’’وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا‘‘(فرقان:۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس نے ہر چیز کوپیدا فرمایاپھر اسے ٹھیک اندازے پر رکھا۔

{عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ:وہ ہر غیب اور ظاہر کو جاننے والا۔} یعنی جو چیزیں  ہمارے لئے غیب ہیں اور جو چیزیں  ہمارے سامنے ظاہر ہیں اللّٰہ تعالیٰ ان سب کو جانتا ہے، ورنہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تو کوئی بھی چیز غیب نہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ ازل سے ابد تک ہر کمال سے مُتّصِف ہے اور ہر طرح کے نقص سے پاک ہے۔(صاوی، الرعد، تحت االآیۃ: ۹، ۳ / ۹۹۳)