Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rahman ≫ ayat 47 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(46)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(47)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں بیان فرمائی ہیں جو ا س نے اپنی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرنے والے متقی اور مومن بندوں کے لئے تیار فرمائی ہیں ۔
اس آیت کاایک معنی یہ ہے کہ جسے دنیا میں قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حساب کی جگہ میں حساب کے لئے کھڑے ہونے کا ڈر ہو اور وہ گناہوں کو چھوڑ دے اور فرائض کی بجا آوری کرے تو ا س کے لئے آخرت میں دو جنتیں ہیں ۔( مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۱۱۹۵، خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۲۱۳، ملتقطاً)
اس معنی کی تائید اس آیتِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى‘‘(نازعات:۴۰،۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانہ ہے۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ جو اس بات سے ڈرے کہ اس کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ جانتا ہے اوروہ اس کے اعمال کی نگرانی رکھتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے وہ بندہ گناہ چھوڑ دے تو ا س کے لئے آخرت میں دو جنتیں ہیں ۔
اس معنی کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
’’ اَفَمَنْ هُوَ قَآىٕمٌ عَلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ‘‘(رعد:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا وہ خدا جو ہر شخص پر اس کے اعمالکی نگرانی رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرنے والے کودو جنتیں ملنے کی وجوہات:
دو جنتوں سے مراد جنت ِعَدن اور جنت ِنعیم ہے اوردو جنتیں ملنے کی وجوہات مفسرین نے مختلف بیان فرمائی ہیں ۔
(1)… ایک جنت اللہ تعالیٰ سے ڈر نے کا صلہ ہے اور ایک نفسانی خواہشات ترک کرنے کا صلہ ہے ۔
(2)…ایک جنت اس کے درست عقیدہ رکھنے کا صلہ ہے اور ایک جنت اس کے نیک اعمال کا صلہ ہے ۔
(3)…ایک جنت اس کے فرمانبرداری کرنے کا صلہ ہے اور ایک جنت گناہ چھوڑ دینے کا صلہ ہے۔
(4)…ایک جنت ثواب کے طور پر ملے گی اور ایک جنت اللہ تعالیٰ کے فضل کے طور پر ملے گی ۔
(5)…ایک جنت اس کی رہائش کے لئے ہو گی اور دوسری جنت اس کی بیویوں کی رہائش کے لئے ہو گی۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۲۱۳، صاوی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۲۰۸۱، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کا خوف بڑی اعلیٰ نعمت ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف بڑی اعلیٰ نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اپنا خوف نصیب کرے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ مبارک میں ایک نوجوان بہت متقی و پرہیز گار و عبادت گزار تھا، حتّٰی کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بھی اس کی عبادت پر تعجب کیا کرتے تھے ۔وہ نوجوان نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنے کے بعداپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنے کے لئے جایا کرتا تھا ۔ راستے میں ایک خوبرُو عورت اسے اپنی طرف بلاتی اور چھیڑتی تھی، لیکن یہ نوجوان اس پر توجہ دئیے بغیر نگاہیں جھکائے گزر جایا کرتا تھا ۔ آخر کار ایک دن وہ نوجوان شیطان کے ورغلانے اور اس عورت کی دعوت پر برائی کے ارادے سے اس کی جانب بڑھا، لیکن جب دروازے پر پہنچا تو اسے اللہ تعالیٰ کا یہی فرمانِ عالیشان یاد آ گیا:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جب شیطان کی طرف سےپرہیزگاروں کو کوئی خیال آتا ہے تو وہ فوراًحکمِ خدا یاد کرتے ہیں پھراسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔
اس آیتِ پاک کے یاد آتے ہی اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدر غالب ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا ۔جب یہ بہت دیر تک گھر نہ پہنچا تو اس کا بوڑھا باپ اسے تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا اور لوگوں کی مدد سے اسے اٹھوا کر گھر لے آیا۔ ہوش آنے پر باپ نے تمام واقعہ دریافت کیا ،نوجوان نے پورا واقعہ بیان کر کے جب اس آیت ِ پاک کا ذکر کیا، تو ایک مرتبہ پھر اس پر اللہ تعالیٰ کا شدید خوف غالب ہوا ،اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس کا دم نکل گیا۔ راتوں رات ہی اس کے غسل و کفن ودفن کا انتظام کر دیاگیا۔ صبح جب یہ واقعہ حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ اُس کے باپ کے پاس تَعْزِیَت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا کہ ’’ آپ نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی ؟(تا کہ ہم بھی جنازے میں شریک ہو جاتے) ۔اس نے عرض کی ’’امیر المومنین!اس کاانتقال رات میں ہوا تھا(اور آپ کے آرام کا خیال کرتے ہوئے بتانامناسب معلوم نہ ہوا)۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔‘‘ وہاں پہنچ کر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی: ’’وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑےہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔
تو قبر میں سے اس نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا: یا امیرَ المومنین!بیشک میرے رب نے مجھے دو جنتیں عطا فرمائی ہیں ۔‘‘(ابن عساکر، ذکر من اسمہ عمرو، عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد۔۔۔ الخ، ۴۵ / ۴۵۰، ذمّ الہوی، الباب الثانی و الثلاثون فی فضل من ذکر ربّہ فترک ذنبہ، ص۱۹۰-۱۹۱)
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! جب اللہ تعالیٰ نے تمہارے اعمال کے ثواب کے لئے جنت بنائی ہے تو تم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( تفسیر سمرقندی، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۳۱۰)