Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rahman ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَ(7)اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(8)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا۔} اللہ تعالیٰ نے آسمان کو محل اور رتبے کے اعتبار سے بلند پیدا فرمایا ہے۔ محل کے اعتبار سے بلندی تو ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے اونچا ہے جبکہ رتبے کے اعتبار سے آسمان کی بلندی یہ ہے کہ وہ فرشتوں کا مَسکن ہے اور یہیں سے اللہ تعالیٰ کے اَحکام صادر ہوتے ہیں ۔ (ابو سعود، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۶۶۱ ، ملخصاً)
{وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَ: اور ترازو رکھی۔} ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں ) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۲۰۹، مدارک، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۱۹۲، ملتقطاً)
ناپنے تولنے کے آلات کی اہمیت:
اللہ تعالیٰ کی جس نعمت کا بیان اس آیت میں ہوا ا س کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگا یاجاسکتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھ غَبن اور دھوکہ دِہی پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ دوسرا شخص کسی چیز میں اس پر غالب آ جائے چاہے وہ چیز معمولی سی ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا اگر ناپ تول کے معاملات میں عدل و انصاف اور برابری نہ ہو تو معاشرے میں جو جھگڑے اور فسادات برپا ہوں گے اور آپس میں جو بغض و عناد پیدا ہوگا وہ کسی عقلمند سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’اے انسان !تو دوسروں کے ساتھ اسی طرح انصاف کر جس طرح تجھے پسند ہے کہ تیرے ساتھ انصاف کیا جائے اور تو دوسروں کو اسی طرح پورا پورا ناپ تول کر دے جیسے تجھے پورا پورا ناپ تول کر لینا پسند ہے کیونکہ عدل و انصاف ہی سے لوگوں کے حالات درست رہ سکتے ہیں ۔( تفسیر طبری، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۵۷۶)