banner image

Home ur Surah Ar Rum ayat 10 Translation Tafsir

اَلرُّوْم

Ar Rum

HR Background

ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوا السُّوْٓ اٰۤى اَنْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا بِهَا یَسْتَهْزِءُوْنَ(10)

ترجمہ: کنزالایمان پھر جنہوں نے حد بھر کی برائی کی ان کا انجام یہ ہوا کہ الله کی آیتیں جھٹلانے لگے اور ان کے ساتھ تمسخر کرتے۔ ترجمہ: کنزالعرفان پھربرائی کرنے والوں کا انجام سب سے برا ہوا کیونکہ انہوں نے الله کی آیتوں کو جھٹلایا اور وہ ان آیتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوا السُّوْٓ اٰى: پھربرائی کرنے والوں  کا انجام سب سے برا ہوا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ گناہوں  کااِرتکاب کرتے رہنے والوں  کا انجام یہ ہو اکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں  پر مہر لگا دی،حتّٰی کہ برے اعمال کی وجہ سے وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کو جھٹلانے لگے اور ان آیتوں  کا مذاق اڑانے لگ گئے ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں  نے برے اعمال کئے (یعنی کفر کیا تو) ان کا انجام سب سے برا ہوا کہ دنیا میں  انہیں  (عذاب نازل کر کے) ہلاک کر دیا گیا اور آخرت میں  ان کے لئے جہنم ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں  پر نازل ہونے والی آیتوں  کو جھٹلایا اور وہ ان آیتوں  کا مذاق اڑاتے تھے۔(بیضاوی، الروم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۳۲۹، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۴۵۹-۴۶۰،  ابوسعود، الروم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۷۱، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۱۱، ملتقطاً)

بد عقیدگی اور گناہوں  کا بنیادی سبب:

            اس آیت کی پہلی تفسیر سے معلوم ہو اکہ برے اعمال پر اِصرار کی وجہ سے انسان برے عقیدے اختیار کر جاتا ہے۔ لہٰذا ہر ایک کو برے اعمال سے بچنے کی شدید حاجت ہے تاکہ وہ بد عقیدگی سے محفوظ رہے ۔کفر سے بچنے کیلئے گناہوں  سے بچنا چاہیے اور گناہوں  سے بچنے کیلئے مُشتَبَہ چیزوں  سے بچنا چاہیے۔ اس سلسلے میں  یہ حدیثِ پاک ملاحظہ کریں ۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ مُشتَبَہ چیزیں  ہیں  جنہیں  بہت سے لوگ نہیں  جانتے، تو جو شُبہات سے بچے گا وہ اپنا دین اور اپنی عزت بچالے گا اورجوشبہات میں  پڑے گا وہ حرام میں  مبتلا ہو جائے گا ، جس طرح کوئی شخص کسی چراگاہ کی حدود کے گرد چَرائے توقریب ہے کہ وہ جانور ا س چراگاہ میں  بھی چر لیں ۔ سنو ہر بادشاہ کی چراگاہ کی ایک حد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں  ہیں  ۔(مسلم، کتاب المساقاۃ، باب اخذ الحلال وترک الشبہات، ص۸۶۲، الحدیث: ۱۰۷(۱۵۹۹))

             اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو برے اعمال کرنے اور بد عقیدگی اختیار کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔