Home ≫ ur ≫ Surah Ar Rum ≫ ayat 30 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاؕ-فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ-لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗۙ-وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(30)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا: تو ہرباطل سے الگ ہو کر اپنا چہرہ اللہ کی اطاعت کیلئے سیدھا رکھو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ جب معاملہ واضح ہو گیا، اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت (روزِ روشن کی طرح) عیاں ہو چکی اور بہت سے مشرک اپنے ضدوعداوت کی وجہ سے ہدایت حاصل نہ کریں گے تو آپ ان مشرکوں کی طرف کوئی اِلتفات نہ فرمائیں اور اللہ تعالیٰ کے دین پر خلوص،اِستقامت اور اِستقلال کے ساتھ قائم رہیں۔( تفسیرکبیر، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۹۸، خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۶۳، ملتقطاً)
{فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا: اللہ کی پیدا کی ہوئی فطرت جس پر اس نے لوگوں کوپیدا کیا۔} اس آیت میں فطرت سے مراد دین ِاسلام ہے اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ایمان پر پیدا کیا،جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات ہل یصلی علیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۵۷، الحدیث: ۱۳۵۸، مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۸، الحدیث: ۲۲(۲۶۵۸))
یعنی اسی عہد پر پیدا کیا جاتاہے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے ’’اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‘‘ فرما کر لیا ہے،تو دنیامیں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے اگرچہ بعد میں وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے لگ جائے ۔
بعض مفسرین کے نزدیک فطرت سے مراد خِلقَت ہے اور معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو توحید اور دین ِاسلام قبول کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور فطری طور پر انسان نہ ا س دین سے منہ موڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس کاانکار کر سکتا ہے کیونکہ یہ دین ہر اعتبار سے عقلِ سلیم سے ہم آہنگ اور صحیح فہم کے عین مطابق ہے اور لوگوں میں سے جو گمراہ ہو گا وہ جنّوں اور انسانوں کے شَیاطین کے بہکانے سے گمراہ ہوگا۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۶۳، مدارک، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۹۰۸، روح المعانی، الروم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱۱ / ۵۶، ملتقطاً)
حضرت عیاض بن حمار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے)میں نے اپنے تمام بندوں کواس حال میں پیدا کیا کہ وہ باطل سے دور رہنے والے تھے، بے شک ان کے پاس شیطان آئے اور ان کو دین سے پھیر دیا اور جو چیزیں میں نے ان پر حلال کی تھیں وہ انہوں نے ان پر حرام کر دیں اور ان کو میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا حالانکہ میں نے اس شرک پر کوئی دلیل نازل نہیں کی۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنّۃ واہل النار، ص۱۵۳۲، الحدیث: ۶۳(۲۸۶۵))
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے،پھر اس بچے کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں ۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبی فمات ہل یصلی علیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۵۷، الحدیث: ۱۳۵۸، مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۸، الحدیث: ۲۲(۲۶۵۸))
نوٹ:یاد رہے کہ دُنْیَوی اَحکام یا اُخروی نجات میں فطری ایمان کا اعتبار نہیں بلکہ صرف شرعی ایمان معتبر ہے۔
{لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ: اللہ کی بنائی ہوئی چیزمیں تبدیلی نہ کرنا۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم شرک کر کے اللہ تعالیٰ کے دین میں تبدیلی نہ کرو بلکہ اسی دین پر قائم رہو جس پر اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کامل خِلقَت پر تمہیں پیدا فرمایا ہے تم اس میں تبدیلی نہ کرو۔
{ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ: یہی سیدھا دین ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کا دین ہی سیدھا دین ہے جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں مگر بہت سے لوگ اس کی حقیقت کو نہیں جانتے تو اے لوگو! تم اسی دین پر قائم رہو ۔