banner image

Home ur Surah Ar Rum ayat 57 Translation Tafsir

اَلرُّوْم

Ar Rum

HR Background

فَیَوْمَىٕذٍ لَّا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ(57)

ترجمہ: کنزالایمان تو اُ س دن ظالموں کو نفع نہ دے گی اُن کی معذرت اور نہ ان سے کوئی راضی کرنا مانگے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو ا س دن ظالموں کوان کا معافی مانگنا نفع نہ دے گا اور نہ ان سے رجوع کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَیَوْمَىٕذٍ: تو ا س دن۔} یعنی قیامت کے دن ظالموں  کوان کا معافی مانگنا کوئی نفع نہ دے گا اور نہ اُن سے یہ کہا جائے گا کہ توبہ کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرلو جیسا کہ دنیا میں  ان سے توبہ طلب کی جاتی تھی کیونکہ اس وقت توبہ اور طاعت مقبول نہیں ۔( روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۵۷، ۷ / ۵۹)

گناہگار مسلمانوں  کے لئے نصیحت :

            اس آیت میں  ان گناہگار مسلمانوں  کے لئے بھی نصیحت ہے کہ جو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گناہوں  میں  صَرف کر رہے ہیں  اور اُن سے توبہ کی طرف اِن کا دل مائل نہیں  ہو رہا،انہیں  اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں  گناہوں  پر پکڑ بھی ہو سکتی ہے اور توبہ کا وقت دنیا کی زندگی ہے ،آخرت میں  توبہ کرنا کچھ کام نہ دے گا، لہٰذاانہیں  چاہئے کہ اپنی زندگی کو غنیمت جان کر موت سے پہلے اپنے اعمال کا   مُحاسبہ کر لیں  اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  گناہوں  سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال میں  مصروف ہو جائیں ۔کثیر اَحادیث میں  اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے، یہاں  ان میں  سے 3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ

(1)… حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  توبہ کر لو اور مشغولیّت سے پہلے نیک اعمال میں  جلدی کرلو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فرض الجمعۃ، ۲ / ۵، الحدیث: ۱۰۸۱)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص سے نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’پانچ چیزوں  کو پانچ چیزوں  سے پہلے غنیمت جانو۔ (1)بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔(2) بیماری سے پہلے تندرستی کو۔(3) فقیری سے پہلے مالداری کو۔ (4) مشغولیّت سے پہلے فُرصت کو۔ (5) اور اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔(مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۶)

(3)… حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عقلمند وہ شخص ہے جو اپنا      مُحاسبہ کرے اورموت کے بعد کے لئے عمل کرے، جبکہ عاجز وہ ہے جو اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا دے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھے۔

            امام ترمذی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث میں  مذکور الفاظ ’’مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ‘‘ کا مطلب قیامت کے حساب سے پہلے (دنیا ہی میں ) نَفس کا محاسبہ کرنا ہے۔

             حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ اپنے نفسوں  کا محاسبہ کرو ا س سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ۔قیامت کے دن اس آدمی کا حساب آسان ہو گا جس نے دنیا ہی میں  اپنا حساب کر لیا۔

             حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ بندہ اس وقت تک پرہیز گار شمار نہیں  ہوتا جب تک اپنے نفس کا ایسے محاسبہ نہ کرے جیسے اپنے شریک کا کرتا ہے کہ اس نے کہاں  سے کھایا اور کہاں  سے پہنا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ۔۔۔ الخ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)

             اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کواپنے اعمال کا محاسبہ کرنے، گناہوں  سے بچنے ،توبہ کرنے اور نیک اعمال میں   مصروف ہونے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔