banner image

Home ur Surah Ar Rum ayat 6 Translation Tafsir

اَلرُّوْم

Ar Rum

HR Background

وَعْدَ اللّٰهِؕ-لَا یُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(6)یَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚۖ-وَ هُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ(7)

ترجمہ: کنزالایمان الله کا وعدہ الله اپنا وعدہ خلاف نہیں کرتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔ جانتے ہیں آنکھوں کے سامنے کی دنیوی زندگی اور وہ آخرت سے پورے بے خبر ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان الله کا وعدہ ہے۔ الله اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ۔ آنکھوں کے سامنے کی دنیوی زندگی کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے بالکل غافل ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَعْدَ اللّٰهِ: اللہ کا وعدہ۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے رومیوں  کے فارس والوں  پر غالب آنے کا وعدہ فرمایاہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ ا پنے کسی وعدے کے خلاف نہیں  کرتا کیونکہ اس کا کلام سچا ہے اور اس کا جھوٹ بولنا قطعی طور پر محال ہے، لیکن اکثر کفار اپنی جہالت کی وجہ سے ا س بات سے بے علم ہیں  کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرماتا ہے۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۵۹، تفسیر قرطبی، الروم، تحت الآیۃ: ۶، ۷ / ۷، الجزء الرابع عشر، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: ۶، ۷ / ۷، ملتقطاً)

{یَعْلَمُوْنَ: جانتے ہیں ۔} اس آیت میں  کفارکے علم کی حد بیان کی گئی کہ وہ لوگ بس اپنے معاشی معاملات کے بارے جانتے ہیں  کہ کیسے کام کئے جائیں ، کس طرح تجارت کی جائے اور کس وقت باغبانی اور کاشتکاری کی جائے اور کب کٹائی کی جائے، جبکہ وہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہیں ،نہ اس میں  کوئی غوروفکر کرتے ہیں  اور نہ ہی اس کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں ۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۴۵۹)

موجودہ دور میں  مسلمانوں  کی علمی اور عملی حالت:

             اس آیت میں  کفار کی جو علمی اور عملی حالت بیان کی گئی ا سے سامنے رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو فی زمانہ عمومی طور پر مسلمانوں  کی علمی اور عملی حالت بھی ایسی ہی نظر آتی ہے کہ یہ مال کمانے کے نت نئے طریقے اور ذرائع تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں  اور اس میں  جائز ناجائز کی بھی پرواہ نہیں  کرتے جبکہ اپنی آخرت کے معاملے میں  انتہائی غفلت کا شکار نظر آتے ہیں ،اپنی موت،قبر اور حشر کے معاملات کے بارے میں  غورو فکر نہیں  کرتے اور عقائد، عبادات اور معاملات میں  سے جن چیزوں  کا سیکھنا فرض ہے اس کی معلومات نہیں  رکھتے۔یہ تو عام مسلمانوں  کا حال ہے جبکہ خواص میں  شمار کئے جانے والوں  میں  سے اکثر کا حال بھی کچھ کم افسوس ناک نہیں ، علماء کہلانے والوں  کی بڑی تعداد حقیقت میں  عالِم ہی نہیں  اور پیر کہلانے والوں  کی بڑی تعداد خود محتاجِ تربیت ہے اور یہ دونوں  قسم کے حضرات عوام کو تعلیم و تربیت دینے کی بجائے جہالت و جرأت دے رہے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں  کو عقل ِسلیم عطا فرمائے اور انہیں  اپنا اصلی مقصد سمجھنے اور اپنی علمی وعملی حالت سدھارنے کی توفیق عطا فرمائے۔