banner image

Home ur Surah As Saffat ayat 100 Translation Tafsir

اَلصّٰٓفّٰت

As Saffat

HR Background

رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(100)فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(101)

ترجمہ: کنزالایمان الٰہی مجھے لائق اولاد دے۔ تو ہم نے اسے خوش خبری سنائی ایک عقل مند لڑکے کی۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبِّ: اے میرے رب!} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب ارضِ مُقَدَّسہ کے مقام پر پہنچے تو اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس اولاد نہیں  تھی ، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا کی: ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے نیک اولاد عطا فرما جو کہ دینِ حق کی دعوت دینے اورتیری عبادت کرنے پر میری مددگار ہو اور پردیس میں  مجھے اس سے اُنسِیَّت حاصل ہو ۔( ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۴ / ۴۱۵)

نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس لئے جب بھی اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا مانگی جائے تو نیک اور صالح اولاد کی دعا مانگنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں  کا ایک وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ نیک، صالح اورمتقی بیویوں  اور اولاد کی دعا نگتے ہیں تاکہ اُن کے اچھے عمل دیکھ کر نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت دیکھ کر ان کی آنکھیں  ٹھنڈی اور دل خوش ہوں ، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا‘‘(فرقان:۷۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہماری بیویوں  اور ہماری اولاد سے ہمیں  آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں  پرہیزگاروں  کا پیشوا بنا۔

{فَبَشَّرْنٰهُ: تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی۔} اس آیت میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوتین بشارتیں  دی گئیں۔ (1)ان کے ہاں  جو اولاد ہو گی وہ لڑکا ہو گا۔(2)وہ بالغ ہونے کی عمر کو پہنچے گا۔(3)وہ عقلمند اور بُردبار ہو گا۔( ابو سعود، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۴۱۵)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصف:

             اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حلیم اور بُردبار لڑکے کی بشارت دی اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود بھی حلیم تھے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔

اورارشاد فرمایا: ’’اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ‘‘(ہود:۷۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا ،بہتآہیں  بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔

 اللہ تعالیٰ کے مقبول بند وں  کو علومِ خَمسہ کی خبر دی جاتی ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بند وں  کو علوم ِخمسہ کی خبر دی جاتی ہے،کیونکہ بیٹے کی ولادت سے پہلے اس کی خبر دے دینا علمِ غیب بلکہ ان پانچ علوم میں  سے ہے جن کے علم کا اللہ تعالیٰ کے پاس ہونا بطورِ خاص قرآن میں  مذکور ہوا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ-وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘(لقمان:۳۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس  ہے اور وہ بارش اتارتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں  کے پیٹ میں  ہے اور کوئی شخص نہیں  جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی شخص نہیں  جانتا کہ وہ کس زمین میں  مرے گا۔ بیشک اللہ علم والا، خبردار ہے۔