Home ≫ ur ≫ Surah As Saffat ≫ ayat 139 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَﭤ(139)اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ(140)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّ یُوْنُسَ: اور بیشک یونس۔} یہاں سے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام یونس بن متیٰ ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ذُو النُّون اور صَاحِبُ الْحُوْتْ ہے، آپ بستی نِیْنَوٰی کے نبی تھے جو مُوصَل کے علاقہ میں دجلہ کے کنارے پر واقع تھی۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چالیس سال ان لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اپنے شرک سے باز نہ آئے، تب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں تین دن کے بعد عذاب آجانے کی خبردی ۔ (روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۷ / ۴۸۶)
{اِذْ اَبَقَ: جب وہ نکل گیا۔} حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو عذاب آ نے کی جو خبر دی تھی جب اس میں تاخیر ہوئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم کے کفر و نافرمانی پر اِصرار کرنے کی وجہ سے غضبناک ہو کر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ہی ہجرت کے ارادے سے چل دئیے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر کوئی تنگی نہیں کرے گااورنہ ہی اس فعل پرمجھ سے کوئی بازپُرس ہوگی۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہجرت کرنے اور غضبناک ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اس شخص کو قتل کر دیتے تھے جس کا جھوٹاہونا ثابت ہو جائے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یقینی طور پر سچے تھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وحیِ الٰہی سے ہی انہیں بتایاکہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تم پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آئے گا لیکن چونکہ فی الحال عذاب آیا نہیں تھا تو قوم کی نظر میں آپ کا کہنا واقع کے خلاف تھا اسی لئے وہ آپ کے قتل کے درپے تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی اندیشے سے وہاں سے چل دئیے حالانکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے عذاب کا تو فرمایا تھا لیکن انہیں کوئی مُتَعَیَّن وقت نہیں بتایا تھا کہ جس پر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو مَعَاذَ اللہ آپ کی قوم جھوٹا کہہ سکتی۔
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت وہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا قول ہے کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے عذاب کا وعدہ کیا تھا،جب اس میں تاخیر ہوئی تو (قتل سے بچنے کے لئے) آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن سے چھپ کر نکل گئے ، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دریائی سفر کا قصد کیا اور بھری کشتی پر سوار ہوگئے، جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو ٹھہر گئی اور اس کے ٹھہرنے کا کوئی ظاہری سبب موجود نہ تھا۔ملاحوں نے کہا: اس کشتی میں اپنے مولا سے بھاگا ہوا کوئی غلام ہے ،قرعہ اندازی کرنے سے ظاہر ہوجائے گا کہ وہ کون ہے۔ چنانچہ قرعہ اندازی کی گئی توا س میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کانام نکلا،اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں ہی وہ غلام ہوں ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پانی میں ڈال دیئے گئے کیونکہ ان لوگوں کادستور یہی تھا کہ جب تک بھاگا ہوا غلام دریا میں غرق نہ کردیاجائے اس وقت تک کشتی چلتی نہ تھی۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ۴ / ۲۶، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ص۱۰۰۹، ملتقطاً)
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اجتہاد کی وجہ سے کشتی میں سوار ہوئے تھے کیونکہ جب عذاب میں تاخیر ہوئی تو حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ گمان ہوا کہ اگر وہ اپنی قوم میں ٹھہرے رہے تو وہ انہیں شہید کر دیں گے کیونکہ ان لوگوں کا دستوریہ تھا کہ جس کا جھوٹاہونا ثابت ہو جائے تو وہ اسے قتل کر دیتے تھے لہٰذا حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کشتی میں سوار ہونا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں اور نہ ہی کوئی کبیرہ یا صغیرہ گنا ہ تھا اور مچھلی کے پیٹ میں قید کر کے ان کا جو مُؤاخذہ ہوا وہ اَولیٰ کام کی مخالفت کی بنا پر ہوا کیونکہ ان کے لئے اَولیٰ یہی تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کرتے۔( صاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ۵ / ۱۷۵۲، ملخصاً)