ترجمہ: کنزالایمان
بلکہ وہ آج گردن ڈالے ہیں ۔
اور ان میں ایک نے دوسرے کی طرف منہ کیا آپس میں پوچھتے ہوئے۔
بولے تم ہمارے دہنی طرف سے بہکانے آتے تھے۔
جواب دیں گے تم خود ہی ایمان نہ رکھتے تھے۔
اور ہمارا تم پر کچھ قابو نہ تھا بلکہ تم سرکش لوگ تھے۔
تو ثابت ہوگئی ہم پر ہمارے رب کی بات ہمیں ضرور چکھنا ہے۔
تو ہم نے تمہیں گمراہ کیا کہ ہم خود گمراہ تھے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ وہ آج گردن جھکائے ہوئے ہوں گے۔
اور ان میں ایک دوسرے کی طرف آپس میں سوال کرتے ہوئے متوجہ ہوگا۔
پیروکارکہیں گے: تم ہمارے پاس طاقت و قوت سے آتے تھے۔
سردار کہیں گے: بلکہ تم خود ہی ایمان والے نہیں تھے۔
اور ہمارا تم پر کچھ قابو نہ تھابلکہ تم سرکش لوگ تھے۔
تو ہم پر ہمارے رب کی بات ثابت ہوگئی (کہ) ہم ضرور مزہ چکھیں گے۔
تو ہم نے تمہیں گمراہ کیا ، بیشک ہم خود گمراہ تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ
هُمْ: بلکہ وہ۔}اللہ تعالیٰ
نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کفارعاجز و ذلیل ہو کر گردن جھکائے ہوئے ہوںگے اور کوئی حیلہ انہیںکام نہ آئے گا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۱۷، ملخصاً)
{وَ
اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ: اور
ان میںایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوگا۔} اس آیت
اور ا س کے بعد والی پانچ آیات میںقیامت
کے دن کفار کا آپس میںہونے والا مُکالمہ
بیان کیا گیا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سردار اور ان کی پیروی کرنے والے آپس میںسوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے
اور پیروی کرنے والے اپنے سرداروںسے
کہیںگے:دنیا میں تم ہمیںاپنی طاقت اور قوت کے زور پر گمراہی پر آمادہ
کرتے تھے اور ہم تمہارے خوف کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبورہو
گئے۔اس پر کفار کے سردار کہیںگے کہ’’ ہم
نے تم پر کوئی زبردستی نہیںکی کہ اس کی
وجہ سے تم ہماری پیروی کرنے پر مجبور ہو گئے ہوبلکہ تم پہلے ہی سے کافر اور سرکش
تھے اور اپنے اختیارسے خود ہی ایمان سے اِعراض کرچکے تھے۔اب ہم پر ہمارے ربعَزَّوَجَلَّ کی وہ بات ثابت ہوگئی جو اُس
نے فرمائی تھی کہ’’ میںضرور جہنم
کوجنوںاور انسانوںسے بھروںگا۔لہٰذا اس کے عذاب کا مزہ گمراہوںکو بھی اور گمراہ کرنے والوںکو
بھی ضرور چکھنا ہے،ہم خود گمراہ تھے تو ہمارے پاس سے گمراہی ہی مل سکتی تھی، تم
ہمار ے پاس آئے ہی کیوں۔(خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۲، ۴ / ۱۷، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۲۷-۳۲، ص۱۰۰۰، ملتقطاً)
نوٹ: میدانِ محشر میںکفار کااسی
طرح کاایک مُکالمہ سورۂ سبا کی آیت نمبر31میںبھی گزر چکا ہے۔
سورت کا تعارف
سورۂ صا فّات کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ صافّات مکہ مکرمہ
میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ والصافات، ۴ / ۱۴)
رکوع اورآیات کی تعداد:
اس سورت میں 5 رکوع اور 182آیتیں
ہیں۔
’’صا فّات ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
صافّات کا معنی ہے صفیں
باندھنے والے،اور اس سورت کی پہلی آیت میں صفیں باندھنے والوں کی قسم ارشاد
فرمائی گئی اس مناسبت سے اس کا نام ’’سورۂ صافّات ‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ صا فّات کی فضیلت:
حضرت عبداللہ بن عباسرَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُمَاسے مروی ہے ،نبی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے
جمعہ کے دن سورۂ یٰسین اور سورۂوَ الصّٰٓفّٰتْ کی تلاوت کی ،پھر ا س نے اللہ تعالیٰ سے کوئی سوال کیا تو اللہ
تعالیٰ اس کا وہ سوال پورا کر دے گا۔( در منثور، سورۃ الصافات،
۷ / ۷۷)
مضامین
سورۂ صا
فّات کے مضامین:
جس طرح دیگر مکی سورتوں میں اکثر بنیادی عقائد کے بیان پر زور دیا گیا ہے
اسی طرح اس سورت میں بھی توحید، وحی،
نبوت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء ملنے کوثابت کیا گیا ہے
اور اس میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں :
(1)…اس سورت کی ابتداء میں صفیں باندھنے والوں ،جھڑک کر چلانے والوں اور قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے والی جماعتوں کی قسم ذکر کرکے فرمایا گیا عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے جو کہ آسمانوں ،زمینوں ،ان کے درمیان
موجود تمام چیزوں اور تمام مَشرقوں کا رب ہے اور یہ بتایا گیا کہ آسمان کو تمام
سرکش جِنّات سے محفوظ کر دیا گیا ہے اور اب وہ عالَمِ بالا کے فرشتوں کی باتیں نہیں سن
سکتے اور جو ان کی باتیں سننے کے لئے اوپر
جائے تو اسے شِہابِ ثاقب سے مارا جاتا ہے۔
(2)…جو کفار نبیٔ کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے معجزات دیکھ کر مذاق اڑاتے تھے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتےتھے ان کی مذمت بیان کی گئی اور نبی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی گئی کہ وہ دن عنقریب آنے والا ہے جس میں ان
کافروں کا انجام انتہائی دردناک ہو گا۔
(3)…اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کی جزاء میں جنت کی نعمتیں بیان کی گئیں اور یہ بتایا گیا کہ لوگوں کو کس چیز کے لئے عمل کرنا چاہئے۔
(4)…پچھلی امتوں کے احوال بیان کئے گئے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو
جھٹلایا انہیں عذاب میں مبتلا کر دیاگیا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں
نے اپنے رسولوں کی پیروی کی تو وہ عذاب سے محفوظ رہے ۔
(5)… حضرت نوح ،حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت
موسیٰ،حضرت ہارون،حضرت الیاس،حضرت لوط اور حضرت یونسعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات بیان کئے اور ان میں سے حضرت ابراہیم اور حضرت یونسعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا۔
(6)…کفار کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ،ان کے اس عقیدے کا رد کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کی گئی ۔
مناسبت
سورۂ
یٰسین کے ساتھ مناسبت:
سورۂ صافّات کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’یٰسین‘‘ کے ساتھ ایک مناسبت یہ ہے کہ سورۂ یٰسینمیں ہلاک کی گئی سابقہ
اُمتوں کے احوال کی طرف اشارہ کیاگیا اور سورۂ صافّات میں ان امتوں کے اَحوال
تفصیل سے بیان کئے گئے۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ سورۂیٰسین میں دنیا اور آخرت میں کافروں اور مسلمانوں کے اَحوال اِجمالی
طور پر ذکر کئے گئے اور سورۂ صافّات میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔