Home ≫ ur ≫ Surah As Saffat ≫ ayat 58 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَ(58)اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ(59)اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(60)لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ(61)
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَ: تو کیا ہم مریں گے نہیں ؟} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب موت ذبح کردی جائے گی تو اہل ِجنت فرشتوں سے کہیں گے :کیا ہم دنیا میں ہو جانے والی پہلی موت کے سوا مریں گے نہیں اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا؟ فرشتے کہیں گے: نہیں یعنی اب تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ اس پر جنتی کہیں گے کہ بیشک یہ بڑی کامیابی ہے جو ہمیں نصیب ہوئی ۔یاد رہے کہ اہلِ جنت کا یہ دریافت کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ لذّت حاصل کرنے کیلئے ہوگا اور اس لئے ہوگا تاکہ وہ دائمی حیات کی نعمت اور عذاب سے مامون ہونے کے احسان پر اللہ کی نعمت کو یاد کریں اور اس ذکر سے انہیں سُرور حاصل ہوگا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۵۸-۶۰، ۴ / ۱۸، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۵۸-۶۰، ص۱۰۰۲، ملتقطاً)
{لِمِثْلِ هٰذَا: ایسی ہی کامیابی کے لیے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بدلے ثواب اور اُخروی انعامات حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ عمل کرنے والوں کو ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنا چاہیے۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۶۱، ۴ / ۱۸-۱۹)
اس آیت ِمبارکہ سے معلوم ہوا کہ اصل اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، لہٰذا اسی کامیابی کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے ۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عملِ مبارک میں بھی اس کی ترغیب موجود ہے، چنانچہ حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دست ِاَقدس میرے ہاتھ میں تھا،اسی دوران آپ نے ایک جنازہ دیکھا تو آپ جلدی جلدی چلنے لگے حتّٰی کہ قبر کے پاس پہنچ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اتنا روئے کہ آپ کے مبارک آنسوؤں سے مٹی تر ہو گئی، پھر ارشاد فرمایا:
’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔( در منثور، الصافات، تحت الآیۃ: ۶۱، ۷ / ۹۵)
اور ہمارے دیگر بزرگانِ دین بھی اسی کی ترغیب دیتے رہے ہیں ،چنانچہ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے وفات کے وقت آنکھیں کھولیں ،پھر مسکرائے اور فرمایا:
’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔( تاریخ دمشق، حرف المیم فی اسماء آباء العبادلۃ، عبد اللّٰہ بن المبارک بن واضح۔۔۔ الخ، ۳۲ / ۴۷۶)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں نے حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو خواب میں دیکھا گویا کہ وہ جنت میں ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف پرواز کر رہے ہیں اور یہ فرما رہے ہیں :
ؔ’’لِمِثْلِ هٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الاول، الباب الثامن، بیان منامات المشایخ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۶۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی آخرت کو کامیاب بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔