banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 127 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(127)اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ(128)

ترجمہ: کنزالایمان اور میں تم سے اس پر کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب۔ کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو راہ گیروں سے ہنسنے کو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور میں تم سے اِس (تبلیغ) پر کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ کیا تم ہر بلندجگہ پر ایک نشان بناتے ہو (راہگیروں کا) مذاق اڑاتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں  تم سے اِس پر کچھ اجرت نہیں  مانگتا۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: ’’میں  رسالت کی ادائیگی پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا،میرا اجر و ثواب تو اسی کے ذمہِ کرم پر ہے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے کیونکہ اسی نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۶ / ۲۹۴)

{اَتَبْنُوْنَ: کیا تم بناتے ہو۔} اس قوم کا معمول یہ تھا کہ انہوں  نے سرِراہ بلند عمارتیں  بنالی تھیں ، وہاں  بیٹھ کر راہ چلنے والوں  کو پریشان کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کے اسی عمل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’کیا تم راہگیروں  کا مذاق اڑانے کے لئے ہر بلندجگہ پر ایک نشان بناتے ہو تاکہ اس پر چڑھ کر گزرنے والوں  سے مذاق مسخری کرو۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۳ / ۳۹۲، ملخصاً)

دوسروں  کو تنگ کرنے کے سلسلے میں  لوگوں  کی رَوِش:

             حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی اس روش کے نظارے ہمارے آج کے معاشرے میں  بھی بکثرت دیکھے جا رہے ہیں ، جیسے چوراہوں  یا گلیوں میں  کھڑے ہو کر وہاں سے گزرنے والوں  کو تنگ کرنا،کسی معذور شخص کو آتا دیکھ کر اس کا مذاق اڑانا،راستے سے گزرنے والی خواتین پرآوازیں  کسنا،راہ چلتی عورتوں  سے ٹکرانا، کوئی راستہ معلوم کرے تو اسے غلط راستہ بتا دینا،راستے میں  کوڑا کرکٹ پھینک دینا، گلیوں  میں  گندا پانی چھوڑ دینا،گلیوں  میں  کھدائی کر کے کئی دنوں  تک بلا وجہ چھوڑے رکھنا،راستوں  میں  غیر قانونی تعمیرات کرنا، گلی محلوں  میں  کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنا اور غلط جگہ گاڑی پارک کر دینا وغیرہ۔اللہ تعالٰی مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے۔ راستوں  میں  بیٹھنے سے متعلق حدیث پاک میں  ہے،حضرت ابوسعید خدری  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: راستوں  میں  بیٹھنے سے بچو۔ لوگوں  نے عرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں  راستے میں  بیٹھنے سے چارہ نہیں ، ہم وہاں  آپس میں  بات چیت کرتے ہیں ۔ فرمایا: جب تم نہیں  مانتے اور بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کرو۔لوگوں  نے عرض کی، راستے کا حق کیا ہے؟ ارشادفرمایا: ’’(1)نظر نیچی رکھنا۔ (2) اَذِیَّت کو دور کرنا۔(3)سلام کا جواب دینا (4)اچھی بات کا حکم کرنا اور (5)بری باتوں  سے منع کرنا۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب افنیۃ الدور والجلوس فیہا۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۴۶۵)

            ایک اور روایت میں  راستے کے یہ دو حق بھی بیان کئے گئے ہیں : (1)فریاد کرنے والے کی فریاد سننا۔ (2)بھولے ہوئے کو ہدایت کرنا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الجلوس فی الطرقات، ۴ / ۳۳۷، الحدیث: ۴۸۱۷)

            حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’راستوں  کے بیٹھنے میں  بھلائی نہیں  ہے، مگر اس کے لیے جو راستہ بتائے، سلام کا جواب دے، نظر نیچی رکھے اور بوجھ لادنے پر مدد کرے۔(شرح سنہ، کتاب الاستئذان، باب کراہیۃ الجلوس علی الطرق، ۶ / ۳۶۵، الحدیث: ۳۲۳۲)