ترجمہ: کنزالایمان
اور چھوڑتے ہو وہ جو تمہارے لیے تمہارے رب نے جورُوئیں بنائیں بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو۔
بولے اے لوط اگر تم باز نہ آئے تو ضرور نکال دئیے جاؤ گے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اوراپنی بیویوں کو چھوڑتے ہو جو تمہارے لیے تمہارے رب نے بنائی ہیں بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو۔
انہوں نے کہا: اے لوط!اگر تم باز نہ آئے تو ضرور نکال دئیے جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَذَرُوْنَ: اور چھوڑتے ہو۔} حضرت لوط عَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا
کہ تمہارے لیے تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے جو
بیویاں بنائی ہیں ، کیا تم ان حلال طیب عورتوں کو چھوڑ کر
مردوں سے بد فعلی جیسی حرام اورخبیث چیزمیں مبتلا ہوتے
ہوبلکہ تم لوگ اس خبیث عمل کی وجہ سے حد سے بڑھنے والے ہو۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۱۶۶، ص۸۲۹، ملتقطاً)
عورتوں کے
ساتھ بد فعلی کرنے کی وعیدیں :
آیت
میں مردوں کے ساتھ بدفعلی کے حرام ہونے کا بیان ہے،
یہاں اس کی مناسبت سے عورت کے ساتھ بھی بدفعلی یعنی پچھلے مقام
میں جماع کرنے کا حکم بیان کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یاد رہے کہ بیوی سے جماع
کرنا بھی صرف اسی جگہ حلال ہے جہاں کی شریعت نے اجازت دی ہے اور ا س سے
بد فعلی کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مردوں سے بد فعلی کرنا حرام
ہے، یہاں بیویوں کے ساتھ بد فعلی کرنے کی وعید پر مشتمل4اَحادیث
ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت خزیمہ بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد
المرسَلین صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہتعالٰی حق بیان کرنے سے حیا نہیں فرماتا، تم
میں سے کسی کے لئے حلال نہیں کہ وہ عورتوں کے
پچھلے مقام میں وطی کرے۔(معجم الکبیر،باب
من اسمہ: خزیمۃ، خزیمۃ بن ثابت الانصاری ذو الشہادتین، ہرمی بن عبد اللّٰہ الخطمی عن
خزیمۃ بن ثابت،۴ / ۸۸، الحدیث:۳۷۳۶)
(2)…حضرت ابو ہریرہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو اپنی بیوی کے پچھلے مقام
میں وطی کرے وہ ملعون ہے۔(ابو داؤد، کتاب
النکاح، باب فی جامع النکاح،۲ / ۳۶۲، الحدیث:۲۱۶۲)
(3)…حضرت ابو ہریرہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ
کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہتعالٰی (قیامت کے دن) اس شخص کی طرف رحمت کی نظر
نہیں فرمائے گا جو اپنی بیوی کے پچھلے مقام میں جماع کرے۔(ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب النہی عن اتیان النساء
فی ادبارہنّ،۲ / ۴۴۹، الحدیث:۱۹۲۳)
(4)…حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا: ’’اللہتعالٰی (قیامت کے دن) اس شخص کی طرف رحمت کی نظر
نہیں فرمائے گا جو کسی مرد یا عورت کے پچھلے مقام میں وطی
کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی کراہیۃ اتیان
النساء فی ادبارہنّ،۲ / ۳۸۸، الحدیث:۱۱۶۸)
{قَالُوْا: انہوں نے
کہا۔} حضرت لوط عَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کی نصیحت کے جواب
میں ان لوگوں نے کہا اے لوط!اگر تم نصیحت کرنے اور اس
فعل کو برا کہنے سے بازنہ آئے تو ضرور ا س شہر سے نکال دئیے جاؤ گے اور
تمہیں یہاں رہنے نہ دیا جائے گا۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۱۶۷، ص۸۲۹)
سورت کا تعارف
سورۂ شعراء کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ شعراء آخری چار
آیتوں کے علاوہ مکیہ ہے،وہ چار آیتیں’’وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمْ‘‘سے شروع ہوتی ہیں۔(خازن، تفسیر سورۃ الشعراء، ۳ / ۳۸۱)
رکوع اور آیات
کی تعداد:
اس سورت میں 11رکوع اور 227
آیتیں ہیں ۔
’’شعراء ‘‘نام
رکھنے کی وجہ :
شعراء، شاعر کی جمع ہے جس
کا معنی واضح ہے۔ اس سورت کی آیت نمبر224سے تاجدارِ رسالت صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے خلاف شاعری کرنے والے
مشرکین کی مذمت بیان کی گئی ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ شعراء‘‘
رکھاگیا۔
سورۂ شعراء کی
فضیلت:
حضرت انس بن مالکرَضِیَاللہ تَعَالٰیعَنْہُسے روایت ہے،نبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اللہتعالٰی نے مجھے تورات کی جگہ (قرآن پاک کی ابتدائی) سات( لمبی) سورتیں عطا کیں اور
انجیل کی جگہ راء ات
(یعنی وہ سورتیں) عطا
کیں (جن کے شروع میں لفظ
’’ر‘‘ موجود ہے)
اور زبور کی جگہ طواسین (یعنی وہ سورتیں جن کے شروع میں ’’طٰسٓمّٓ‘‘ ہے)
اور حوامیم (یعنی وہ سورتیں جن کے
شروع میں حٰمٓہے) کے
مابین سورتیں عطا فرمائیں اور مجھے حوامیم اور مُفَصَّل سورتوں کے ذریعے (ان انبیاء کرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَامپر) فضیلت دی گئی اور مجھ سے
پہلے ان سورتوں کو کسی نبی نے نہیں پڑھا۔(
کنز العمال، کتاب الاذکار، قسم الاقوال، ۱ /
۲۸۵، الحدیث: ۲۵۷۸، الجزء الاول)
مضامین
سورۂ
شُعراء کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ا س میں اللہ تعالٰی کے واحد و یکتا ہونے،تاجدارِ رسالتصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا اللہتعالٰی کا نبی اور رسول ہونے،موت
کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اسلام کے دیگر عقائد کو دلائل کے ساتھ بیان کیا
گیا ہے، نیز ا س سورت میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ،
(1)…اس سورت کی ابتداء میں قرآن پاک کی عظمت و شان اور ہدایت کے معاملے میں
اس کا ہدف بیان کیا گیا۔
(2)…نبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر قرآن پاک وحی کی صورت میں نازل ہونے کو ثابت کیا گیا
اور کفارِ مکہ کے رسولِ کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت پر ایمان لانے سے اِعراض کرنے پر آپصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی گئی۔
(3)…نباتات کی تخلیق سے اللہ تعالٰی کے وجود اور اس کی وحدانیت پر اِستدلال کیا گیا۔
(4)…سیّد المرسَلینصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو جھٹلانے والے کفار کو نصیحت کرنے کے لئے پچھلے انبیاء ِکرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی امتوں کے واقعات بیان کئے گئے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا واقعہ بیان کیا گیا اور اس واقعے میں حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکے معجزات، اللہ تعالٰی کی وحدانیت کے بارے میں فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا ہونے
والامُکالمہ،روشن نشانیوں کے ساتھ حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی تائید و مدد کئے جانے اور جادوگروں کے ایمان لانے کو ذکر کیاگیا۔اس کے بعد حضرت ابراہیمعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا وہ وا قعہ بیان کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے عُرفی باپ آزر اور اپنی قوم کا بتوں کی پوجا کرنے کے
معاملے میں رد کیا اور اللہ تعالٰی کی وحدانیت و یکتائی کو ثابت کیا۔اس کے بعد
حضرت نوح،حضرت ہود،حضرتصالح،حضرت لوط اور حضرت شعیبعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات بیان کئے گئے اور انہی واقعات کے ضِمن میں رسولوں کو جھٹلانے والوں کا عبرتناک انجام بیان کیاگیا۔
(5)…نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور آخرت کا انکار کرنے
والے کافروں کو برے عذاب کی وعید سنائی
گئی۔
(6)…اس بات کو ثابت کیا گیا کہ قرآن مجید شیطانوں کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کا کلام اور ا س کی وحی ہے اورنبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوئی
شاعر یا کاہن نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے عظیم رسول ہیں جو اس کے احکام اپنے خاندان والوں اور پوری امت تک
پہنچاتے ہیں ۔
مناسبت
سورۂ فرقان کے ساتھ مناسبت:
سورۂ شعراء کی اپنے سے ماقبل سورت ’’فرقان ‘‘کے ساتھ ایک مناسبت یہ
ہے کہ سورۂ فرقان کی ابتداء قرآن پاک کی تعظیم سے ہوئی اور سورۂ شعراء کی
ابتداء بھی قرآن پاک کی تعظیم سے ہوئی۔دوسری مناسبت یہ ہے کہ سورۂ فرقان
میںجس ترتیب سے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات اِجمالی طور پر بیان کئے گئے اُسی ترتیب سے سورۂ شعراء میںان کے واقعات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں ، اورتیسری
مناسبت یہ ہے کہ سورۂ فرقان کے آخر میںکفار کی مذمت اور مسلمانوںکی مدح
بیان ہوئی اور سورۂ شعراء کے آخر میںبھی کفار کی مذمت اور مسلمانوںکی
مدح بیان ہوئی ہے۔