banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 218 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

الَّذِیْ یَرٰىكَ حِیْنَ تَقُوْمُ(218)وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ(219)اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(220)

ترجمہ: کنزالایمان جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو۔ اور نمازیوں میں تمہارے دورے کو۔ بیشک وہی سنتا جانتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو۔ اور نمازیوں میں تمہارے دورہ فرمانے کو (دیکھتا ہے۔) بیشک وہی سننے والاجاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْ یَرٰىكَ: جو تمہیں  دیکھتا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ا س پر بھروسہ کریں  جو آپ کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ آدھی رات کے وقت تہجد کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ۔بعض مفسرین کے نزدیک یہاں  قیام سے دعا کے لئے کھڑا ہونا مراد ہے اور بعض کے نزدیک مراد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہر اس مقام پر آپ کو دیکھتا ہے جہاں  آپ ہوں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۸، ۶ / ۳۱۲، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۸، ۳ / ۳۹۸، ملتقطاً)

{وَ تَقَلُّبَكَ: اور تمہارے دورہ فرمانے کو۔} یعنی اللہ تعالٰی آپ کو ا س وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ اپنے تہجد پڑھنے والے اصحاب کے حالات ملاحظہ فرمانے کے لئے رات کے وقت گھومتے ہیں ۔ مفسرین نے ا س آیت کے اور معنی بھی بیان کئے ہیں ۔

(1)… اس کا معنی یہ ہے: ’’اللہ تعالٰی آپ کو ا س وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ امام بن کر نماز پڑھاتے ہیں  اور قیام، رکوع، سجود اورقعدہ کی حالت میں  ہوتے ہیں ۔

(2)…اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نمازوں میں  آپ کی آنکھ کی گردش کو دیکھتا ہے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے آگے اور پیچھے سے یکساں  ملاحظہ فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں  ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:خدا کی قسم! مجھ پر تمہارا خشوع اوررکوع مخفی نہیں ، میں  تمہیں  اپنے پس ِپُشت دیکھتا ہوں۔(بخاری، کتاب الصلاۃ، باب عظۃ الامام الناس فی اتمام الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶۱، الحدیث: ۴۱۸)

(3)… بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  ساجدین سے مومنین مراد ہیں  اور معنی یہ ہیں  کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے زمانے سے لے کر حضرت عبداللہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت آمنہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا تک مومنین کی پشتوں  اور رحموں  میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دورے کو ملاحظہ فرماتاہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام آباء واَجداد سب کے سب مومن ہیں۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ص۸۳۴، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ۳ / ۳۹۸، جمل، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۹،۵ / ۴۱۳، ملتقطاً)

{اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ: بیشک وہی سننے والا ہے۔} یعنی بے شک اللہ تعالٰی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گفتگو سننے  والا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل اور نیت کو جاننے والاہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۰، ص۸۳۴)