ترجمہ: کنزالایمان
جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو۔
اور نمازیوں میں تمہارے دورے کو۔
بیشک وہی سنتا جانتا ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو۔
اور نمازیوں میں تمہارے دورہ فرمانے کو (دیکھتا ہے۔)
بیشک وہی سننے والاجاننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْ یَرٰىكَ: جو
تمہیں دیکھتا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ا س پر بھروسہ
کریں جو آپ کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ آدھی رات کے وقت
تہجد کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ۔بعض مفسرین کے
نزدیک یہاں قیام سے دعا کے لئے کھڑا ہونا مراد ہے اور بعض کے
نزدیک مراد یہ ہے کہ اللہتعالٰی ہر اس مقام پر آپ کو دیکھتا ہے جہاں آپ ہوں ۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ:۲۱۸،۶ / ۳۱۲، خازن، الشعراء، تحت
الآیۃ:۲۱۸،۳ / ۳۹۸، ملتقطاً)
{وَ تَقَلُّبَكَ: اور تمہارے دورہ فرمانے
کو۔} یعنی اللہتعالٰی آپ کو ا س وقت بھی
دیکھتا ہے جب آپ اپنے تہجد پڑھنے والے اصحاب کے حالات ملاحظہ فرمانے کے لئے رات
کے وقت گھومتے ہیں ۔ مفسرین نے ا س آیت کے اور معنی بھی بیان کئے ہیں ۔
(1)… اس کا معنی یہ ہے:
’’اللہتعالٰی آپ کو ا س وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ امام بن کر نماز پڑھاتے
ہیں اور قیام، رکوع، سجود اورقعدہ کی حالت میں ہوتے
ہیں ۔
(2)…اس کا معنی یہ ہے
کہ اللہتعالٰی نمازوں میں آپ کی آنکھ کی گردش کو دیکھتا ہے
کیونکہ نبی کریم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے آگے اور پیچھے سے یکساں ملاحظہ فرماتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے
مروی حدیث میں ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا:خدا کی قسم! مجھ پر تمہارا خشوع اوررکوع مخفی نہیں ، میں تمہیں اپنے
پس ِپُشت دیکھتا ہوں۔(بخاری، کتاب الصلاۃ، باب عظۃ الامام الناس فی
اتمام الصلاۃ۔۔۔الخ،۱ / ۱۶۱، الحدیث:۴۱۸)
(3)… بعض مفسرین کے
نزدیک اس آیت میں ساجدین سے مومنین مراد ہیں اور معنی یہ
ہیں کہ حضرت آدم عَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَام اور حضرت حوارَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے زمانے سے لے کر حضرت عبداللہرَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور
حضرت آمنہ رَضِیَاللہ تَعَالٰیعَنْہَا تک
مومنین کی پشتوں اور رحموں میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دورے کو ملاحظہ
فرماتاہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم عَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَام تک آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام آباء
واَجداد سب کے سب مومن ہیں۔(مدارک، الشعراء،
تحت الآیۃ:۲۱۹،
ص۸۳۴، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ:۲۱۹،۳ / ۳۹۸، جمل، الشعراء، تحت الآیۃ:۲۱۹،۵ / ۴۱۳، ملتقطاً)
{اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ: بیشک وہی سننے والا
ہے۔} یعنی بے شک اللہتعالٰی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گفتگو
سننے والا
اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل اور نیت کو جاننے والاہے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۲۲۰، ص۸۳۴)
سورت کا تعارف
سورۂ شعراء کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ شعراء آخری چار
آیتوں کے علاوہ مکیہ ہے،وہ چار آیتیں’’وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمْ‘‘سے شروع ہوتی ہیں۔(خازن، تفسیر سورۃ الشعراء، ۳ / ۳۸۱)
رکوع اور آیات
کی تعداد:
اس سورت میں 11رکوع اور 227
آیتیں ہیں ۔
’’شعراء ‘‘نام
رکھنے کی وجہ :
شعراء، شاعر کی جمع ہے جس
کا معنی واضح ہے۔ اس سورت کی آیت نمبر224سے تاجدارِ رسالت صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے خلاف شاعری کرنے والے
مشرکین کی مذمت بیان کی گئی ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ شعراء‘‘
رکھاگیا۔
سورۂ شعراء کی
فضیلت:
حضرت انس بن مالکرَضِیَاللہ تَعَالٰیعَنْہُسے روایت ہے،نبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اللہتعالٰی نے مجھے تورات کی جگہ (قرآن پاک کی ابتدائی) سات( لمبی) سورتیں عطا کیں اور
انجیل کی جگہ راء ات
(یعنی وہ سورتیں) عطا
کیں (جن کے شروع میں لفظ
’’ر‘‘ موجود ہے)
اور زبور کی جگہ طواسین (یعنی وہ سورتیں جن کے شروع میں ’’طٰسٓمّٓ‘‘ ہے)
اور حوامیم (یعنی وہ سورتیں جن کے
شروع میں حٰمٓہے) کے
مابین سورتیں عطا فرمائیں اور مجھے حوامیم اور مُفَصَّل سورتوں کے ذریعے (ان انبیاء کرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَامپر) فضیلت دی گئی اور مجھ سے
پہلے ان سورتوں کو کسی نبی نے نہیں پڑھا۔(
کنز العمال، کتاب الاذکار، قسم الاقوال، ۱ /
۲۸۵، الحدیث: ۲۵۷۸، الجزء الاول)
مضامین
سورۂ
شُعراء کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ا س میں اللہ تعالٰی کے واحد و یکتا ہونے،تاجدارِ رسالتصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا اللہتعالٰی کا نبی اور رسول ہونے،موت
کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اسلام کے دیگر عقائد کو دلائل کے ساتھ بیان کیا
گیا ہے، نیز ا س سورت میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ،
(1)…اس سورت کی ابتداء میں قرآن پاک کی عظمت و شان اور ہدایت کے معاملے میں
اس کا ہدف بیان کیا گیا۔
(2)…نبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر قرآن پاک وحی کی صورت میں نازل ہونے کو ثابت کیا گیا
اور کفارِ مکہ کے رسولِ کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت پر ایمان لانے سے اِعراض کرنے پر آپصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی گئی۔
(3)…نباتات کی تخلیق سے اللہ تعالٰی کے وجود اور اس کی وحدانیت پر اِستدلال کیا گیا۔
(4)…سیّد المرسَلینصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو جھٹلانے والے کفار کو نصیحت کرنے کے لئے پچھلے انبیاء ِکرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی امتوں کے واقعات بیان کئے گئے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا واقعہ بیان کیا گیا اور اس واقعے میں حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکے معجزات، اللہ تعالٰی کی وحدانیت کے بارے میں فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا ہونے
والامُکالمہ،روشن نشانیوں کے ساتھ حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی تائید و مدد کئے جانے اور جادوگروں کے ایمان لانے کو ذکر کیاگیا۔اس کے بعد حضرت ابراہیمعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا وہ وا قعہ بیان کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے عُرفی باپ آزر اور اپنی قوم کا بتوں کی پوجا کرنے کے
معاملے میں رد کیا اور اللہ تعالٰی کی وحدانیت و یکتائی کو ثابت کیا۔اس کے بعد
حضرت نوح،حضرت ہود،حضرتصالح،حضرت لوط اور حضرت شعیبعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات بیان کئے گئے اور انہی واقعات کے ضِمن میں رسولوں کو جھٹلانے والوں کا عبرتناک انجام بیان کیاگیا۔
(5)…نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور آخرت کا انکار کرنے
والے کافروں کو برے عذاب کی وعید سنائی
گئی۔
(6)…اس بات کو ثابت کیا گیا کہ قرآن مجید شیطانوں کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کا کلام اور ا س کی وحی ہے اورنبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوئی
شاعر یا کاہن نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے عظیم رسول ہیں جو اس کے احکام اپنے خاندان والوں اور پوری امت تک
پہنچاتے ہیں ۔
مناسبت
سورۂ فرقان کے ساتھ مناسبت:
سورۂ شعراء کی اپنے سے ماقبل سورت ’’فرقان ‘‘کے ساتھ ایک مناسبت یہ
ہے کہ سورۂ فرقان کی ابتداء قرآن پاک کی تعظیم سے ہوئی اور سورۂ شعراء کی
ابتداء بھی قرآن پاک کی تعظیم سے ہوئی۔دوسری مناسبت یہ ہے کہ سورۂ فرقان
میںجس ترتیب سے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات اِجمالی طور پر بیان کئے گئے اُسی ترتیب سے سورۂ شعراء میںان کے واقعات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں ، اورتیسری
مناسبت یہ ہے کہ سورۂ فرقان کے آخر میںکفار کی مذمت اور مسلمانوںکی مدح
بیان ہوئی اور سورۂ شعراء کے آخر میںبھی کفار کی مذمت اور مسلمانوںکی
مدح بیان ہوئی ہے۔