Home ≫ ur ≫ Surah Ash Shuara ≫ ayat 224 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَﭤ(224)اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ(225)وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ(226)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الشُّعَرَآءُ: اور شاعر۔} شانِ نزول: یہ آیت کفار کے ان شاعروں کے بارے میں نازل ہوئی جورسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف شعر بناتے اور یہ کہتے تھے کہ جیسا محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہتے ہیں ایسا ہم بھی کہہ لیتے ہیں اور اُن کی قوم کے گمراہ لوگ اُن سے ان اَشعار کو نقل کرتے تھے۔ اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت فرمائی گئی ہے کہ شاعروں کی اُن کے اشعار میں پیرو ی توگمراہ لوگ کرتے ہیں کہ اُن اشعار کو پڑھتے ہیں ، رواج دیتے ہیں حالانکہ وہ اشعار جھوٹے اورباطل ہوتے ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۴، ۳ / ۳۹۸-۳۹۹، ملخصاً)
غلط شاعری کرنے والوں اور سننے، پڑھنے والوں کو نصیحت:
اس سے معلوم ہو اکہ شاعروں کا جھوٹے اور باطل اَشعار لکھنا،انہیں پڑھنا،دوسروں کو سنانا اور انہیں معاشرے میں رائج کرنا گمراہ لوگوں کا کام ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو ایسے اشعار لکھتے ہیں جن میں اللہ تعالٰی اورنبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین،دین ِاسلام اور قرآن کا مذاق اڑانے اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ کے مقرب بندوں کی شان میں گستاخی کے کلمات ہوتے ہیں ، یونہی بے حیائی، عُریانی اور فحاشی کی ترغیب پر مشتمل نیز عورت اور مرد کے نفسانی جذبات کو بھڑکانے والے الفاظ کے ساتھ شاعری کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی نصیحت حاصل کریں جو ان کی بیہودہ شاعری سنتے، پڑھتے اوردوسروں کو سناتے ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم میں سے کسی شخص کا پیٹ پیپ سے بھر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے بھرا ہوا ہو۔( بخاری، کتاب الادب، باب ما یکرہ ان یکون الغالب علی الانسان الشعر۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۱۵۴)
حضرت بریدہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اسلام میں فحش اور بے حیائی پر مشتمل اشعار کہے تو ا س کی زبان ناکارہ ہے۔(شعب الایمان ، الرابع و الثلاثون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فی حفظ اللسان عن الشعر الکاذب ، ۴ / ۲۷۶ ، الحدیث: ۵۰۸۸)اور ایک روایت میں ہے کہ اس کا خون رائیگاں گیا۔( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۲۳۰، الحدیث: ۷۹۷۲، الجزء الثالث)
اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
{ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ: شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔} یعنی عرب کے شاعر کلام اور فن کی ہر قسم میں شعر کہتے ہیں ،کبھی وہ اشعار کی صورت میں کسی کی تعریف کرتے ہیں اور کبھی کسی کی مذمت و برائی بیان کرتے ہیں ۔ان کے اشعار میں اکثر بے حیائی کی باتیں ، گالی گلوچ،لعن طعن،بہتان اور الزام تراشی، فخر و تکبر کا اظہار،حسد،خود پسندی، فضیلت کا اظہار، تذلیل،توہین،برے اخلاق اور ایک دوسرے کے نسبوں میں طعن کرنا وغیرہ مذموم چیزیں ہوتی ہیں ۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۵، ۶ / ۳۱۶، ملخصاً)
{وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ: اور وہ ایسی بات کہتے ہیں ۔} یہاں شاعروں کے قول اور عمل میں تضاد بیا ن کیا گیا کہ وہ اپنے اشعار میں سخاوت کی تعریف بیان کرتے اور اس کی ترغیب دیتے ہیں لیکن خود سخاوت کرنے سے اِعراض کرتے ہیں اور بخل کی مذمت بیان کرتے ہیں جبکہ خود انتہائی کنجوسی سے کام لیتے ہیں ۔اگر کسی کے آباء و اَجداد میں سے کسی نے کوئی چھوٹی سی غلطی کی ہو تو اس کی وجہ سے لوگوں کی برائی بیان کرتے ہیں اور پھر خود بے حیائی کے کام کرنے لگ جاتے ہیں۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۶، ۳ / ۳۹۹، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۶، ۸ / ۵۳۸، ملتقطاً)