banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 23 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(23)قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ(24)

ترجمہ: کنزالایمان فرعون بولا اور سارے جہان کا رب کیا ہے۔ موسیٰ نے فرمایا رب آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اگر تمہیں یقین ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان فرعون نے کہا:اور سارے جہان کا رب کیا چیزہے؟ موسیٰ نے فرمایا : آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے وہ سب کا رب ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ فِرْعَوْنُ: فرعون نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس تقریر سے فرعون لاجواب ہوگیا او ر اس نے اُسلوب ِکلام بدلا اور یہ گفتگو چھوڑ کر دوسری بات شروع کر دی کہ سارے جہان کا رب کیا چیزہے جس کے تم اپنے آپ کو رسول بتاتے ہو۔(ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۱۵۹، ملخصاً)

{قَالَ: موسیٰ نے فرمایا۔} بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کا سوال چیز کی جنس کے بارے میں  تھا اور اللہ تعالٰی چونکہ جنس اور ماہیت سے پاک ہے ا س لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اللہ تعالٰی کے افعال اور ا س کی قدرت کے وہ آ ثار ذکر فرمائے جن کی مثل لانے سے مخلوق عاجز ہے،چنانچہ فرمایا کہ سارے جہان کا رب وہ ہے جو آسمانوں  اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں  ہے، ان سب کو پیدا کرنے والا ہے، اگر تم لوگ اَشیاء کو دلیل سے جاننے کی صلاحیت رکھتے ہو تو ان چیزوں  کی پیدائش اُس کے وجود کی کافی دلیل ہے۔اس مفہوم کے اعتبار سے آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہرشخص سے اس کے لائق گفتگو کرنی چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ ہمیں  حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں  سے ان کی عقلوں  کے مطابق کلام کریں ۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۳۹۸، الحدیث: ۱۶۱۱)

بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کا سوال اللہ تعالٰی کی صفت کے بارے میں  تھا اس لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہاں  جو جواب دیا وہ فرعون کے سوال کے مطابق ہے۔ یاد رہے کہ اِیقان اس علم کو کہتے ہیں  جو اِستدلال سے حاصل ہو، اسی لئے اللہ تعالٰی کی شان میں مُوْقِن نہیں  کہا جاتا۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۳۸۴، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۸۱۷، ملتقطاً)