banner image

Home ur Surah Ash Shuara ayat 71 Translation Tafsir

اَلشُّـعَرَاء

Surah Ash Shuara

HR Background

وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَﭥ(69)اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ(70)قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِیْنَ(71)

ترجمہ: کنزالایمان اور ان پر پڑھو خبر ابراہیم کی۔ جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا تم کیا پوجتے ہو۔ بولے ہم بتوں کو پوجتے ہیں پھر ان کے سامنے آسن مارے رہتے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ان کے سامنے ابراہیم کی خبر پڑھو۔ جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں پھر ان کے سامنے جم کر بیٹھے رہتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ: اور ان کے سامنے پڑھو۔} اس رکوع میں  سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان فرمایا جا رہا ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ کے سامنے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہ واقعہ بیان کریں  کہ جب انہوں  نے اپنے (عُرفی) باپ اور اپنی قوم سے فرمایا’’ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جانتے تھے کہ وہ لوگ بت پرست ہیں ، اس کے باوجود آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ان سے یہ سوال فرمانا اس لئے تھا تاکہ اُنہیں  دکھادیں  کہ جن چیزوں  کو وہ لوگ پوجتے ہیں  وہ کسی طرح بھی عبادت کے مستحق نہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۹-۷۰، ص۸۲۲، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۹-۷۰، ۳ / ۳۸۸، ملتقطاً)

          نوٹ:یاد رہے کہ آیت میں  باپ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا آزَر مراد ہے۔ اس بارے میں  تفصیلی معلومات کے لئے سورۂ مریم آیت نمبر42کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ،نیزاس واقعے کی بعض تفصیلات سورۂ اَنعام، آیت نمبر74تا83،سورۂ توبہ، آیت نمبر114، سورۂ مریم،آیت نمبر 41تا49 اور سورۂ اَنبیاء، آیت نمبر51تا 70 میں  گزر چکی ہیں ۔

{ قَالُوْا: انہوں  نے کہا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سوال کرنے پر قوم نے جواب دیا ’’ہم بتوں  کی عبادت کرتے ہیں ،اس کے بعد فخریہ انداز میں  کہنے لگے کہ ہم ان کے سامنے سار ادن جم کر بیٹھے رہتے ہیں ۔( ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۴ / ۱۶۶)