ترجمہ: کنزالایمان
کیا انہوں نے زمین کو نہ دیکھا ہم نے اس میں کتنے عزت والے جوڑے اُگائے۔
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں ۔
اور بیشک تمہارا رب ضرور وہی عزت والا مہربان ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہوں نے زمین کی طرف نہ دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی قسموں کے اچھے جوڑے اگائے۔
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان والے نہیں ۔
اور بیشک تمہارا رب ہی یقینا بہت عزت والا، مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ: کیا انہوںنے زمین کی طرف نہ
دیکھا۔} ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالٰی کی
آیات سے منہ پھیرنے والے، انہیںجھٹلانے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے مشرکین نے کیا زمین کے عجائبات کی
طرف نہیںدیکھاکہ ہم نے اس میںکتنی قسموںکی نباتات کے اچھے جوڑے اگائے اور ان سے انسان و جانور دونوںنفع اٹھاتے ہیں۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۲۶۳)
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ: بیشک
اس میں ۔} یعنی زمین میںکتنی قسموںکے اچھے جوڑے اگائے جانے میںعظیم نشانی ہے جوکہ اللہ تعالٰی کی قدرت کے کمال،اس کے علم کی کثرت اور اس کی رحمت کی وسعت پر دلالت کرتی ہے اور یہ چیزیں ایمان قبول کرنے کی طرف راغب
کرنے والی اور کفر سے روکنے والی ہیںاور
ا س کے باوجود ان مشرکوںمیںسے اکثر ایمان قبول کرنے والے نہیںکیونکہ یہ کفر و گمراہی میںڈوبے ہوئے اور سرکشی و جہالت میںمُنہَمِک ہیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۲۶۳)
بعض مفسرین
نے اس آیت کا یہ معنی بھی بیان کیا ہے کہ وہ لوگ جو قیامت میںدوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر ہیںان کیلئے زمین میںمختلف قسموںکی بہترین اور نفع بخش چیزوںکی
پیدائش میںاس بات کی دلیل موجود ہے کہ
قیامت میںلوگوںکو دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ جو رب تعالٰی مردہ زمین سے ایسی بہترین نباتات پیدا کرنے پر قادر ہے تو وہ ہر گز
اس بات سے عاجز نہیںکہ مردوںکے بکھرے ہوئے اَجزاء جمع کر کے قبروںسے انہیںزندہ اٹھائے۔ لیکن ان میںسے ا کثر
قیامت کے دن اٹھائے جانے پر ایمان نہیںلاتے۔( تفسیر طبری، الشعراء،
تحت الآیۃ: ۸، ۹ / ۴۳۴)
{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّہی یقینی طور پر عزت والا ہے، وہی غالب اور کافروںکو سزا دینے پر قدرت رکھنے والا ہے اور وہی بہت
بڑا مہربان ہے اور اسی نے اپنی رحمت سے مشرکوںکی فوری گرفت نہیںفرمائی بلکہ
انہیں (اپنا حال سنوار لینے کی) مہلت دی ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۲۶۴)
سورت کا تعارف
سورۂ شعراء کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ شعراء آخری چار
آیتوں کے علاوہ مکیہ ہے،وہ چار آیتیں’’وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمْ‘‘سے شروع ہوتی ہیں۔(خازن، تفسیر سورۃ الشعراء، ۳ / ۳۸۱)
رکوع اور آیات
کی تعداد:
اس سورت میں 11رکوع اور 227
آیتیں ہیں ۔
’’شعراء ‘‘نام
رکھنے کی وجہ :
شعراء، شاعر کی جمع ہے جس
کا معنی واضح ہے۔ اس سورت کی آیت نمبر224سے تاجدارِ رسالت صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے خلاف شاعری کرنے والے
مشرکین کی مذمت بیان کی گئی ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ شعراء‘‘
رکھاگیا۔
سورۂ شعراء کی
فضیلت:
حضرت انس بن مالکرَضِیَاللہ تَعَالٰیعَنْہُسے روایت ہے،نبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اللہتعالٰی نے مجھے تورات کی جگہ (قرآن پاک کی ابتدائی) سات( لمبی) سورتیں عطا کیں اور
انجیل کی جگہ راء ات
(یعنی وہ سورتیں) عطا
کیں (جن کے شروع میں لفظ
’’ر‘‘ موجود ہے)
اور زبور کی جگہ طواسین (یعنی وہ سورتیں جن کے شروع میں ’’طٰسٓمّٓ‘‘ ہے)
اور حوامیم (یعنی وہ سورتیں جن کے
شروع میں حٰمٓہے) کے
مابین سورتیں عطا فرمائیں اور مجھے حوامیم اور مُفَصَّل سورتوں کے ذریعے (ان انبیاء کرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَامپر) فضیلت دی گئی اور مجھ سے
پہلے ان سورتوں کو کسی نبی نے نہیں پڑھا۔(
کنز العمال، کتاب الاذکار، قسم الاقوال، ۱ /
۲۸۵، الحدیث: ۲۵۷۸، الجزء الاول)
مضامین
سورۂ
شُعراء کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ا س میں اللہ تعالٰی کے واحد و یکتا ہونے،تاجدارِ رسالتصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا اللہتعالٰی کا نبی اور رسول ہونے،موت
کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اسلام کے دیگر عقائد کو دلائل کے ساتھ بیان کیا
گیا ہے، نیز ا س سورت میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ،
(1)…اس سورت کی ابتداء میں قرآن پاک کی عظمت و شان اور ہدایت کے معاملے میں
اس کا ہدف بیان کیا گیا۔
(2)…نبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر قرآن پاک وحی کی صورت میں نازل ہونے کو ثابت کیا گیا
اور کفارِ مکہ کے رسولِ کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت پر ایمان لانے سے اِعراض کرنے پر آپصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دی گئی۔
(3)…نباتات کی تخلیق سے اللہ تعالٰی کے وجود اور اس کی وحدانیت پر اِستدلال کیا گیا۔
(4)…سیّد المرسَلینصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو جھٹلانے والے کفار کو نصیحت کرنے کے لئے پچھلے انبیاء ِکرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی امتوں کے واقعات بیان کئے گئے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا واقعہ بیان کیا گیا اور اس واقعے میں حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکے معجزات، اللہ تعالٰی کی وحدانیت کے بارے میں فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا ہونے
والامُکالمہ،روشن نشانیوں کے ساتھ حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکی تائید و مدد کئے جانے اور جادوگروں کے ایمان لانے کو ذکر کیاگیا۔اس کے بعد حضرت ابراہیمعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَامکا وہ وا قعہ بیان کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے عُرفی باپ آزر اور اپنی قوم کا بتوں کی پوجا کرنے کے
معاملے میں رد کیا اور اللہ تعالٰی کی وحدانیت و یکتائی کو ثابت کیا۔اس کے بعد
حضرت نوح،حضرت ہود،حضرتصالح،حضرت لوط اور حضرت شعیبعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات بیان کئے گئے اور انہی واقعات کے ضِمن میں رسولوں کو جھٹلانے والوں کا عبرتناک انجام بیان کیاگیا۔
(5)…نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور آخرت کا انکار کرنے
والے کافروں کو برے عذاب کی وعید سنائی
گئی۔
(6)…اس بات کو ثابت کیا گیا کہ قرآن مجید شیطانوں کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کا کلام اور ا س کی وحی ہے اورنبی کریمصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوئی
شاعر یا کاہن نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے عظیم رسول ہیں جو اس کے احکام اپنے خاندان والوں اور پوری امت تک
پہنچاتے ہیں ۔
مناسبت
سورۂ فرقان کے ساتھ مناسبت:
سورۂ شعراء کی اپنے سے ماقبل سورت ’’فرقان ‘‘کے ساتھ ایک مناسبت یہ
ہے کہ سورۂ فرقان کی ابتداء قرآن پاک کی تعظیم سے ہوئی اور سورۂ شعراء کی
ابتداء بھی قرآن پاک کی تعظیم سے ہوئی۔دوسری مناسبت یہ ہے کہ سورۂ فرقان
میںجس ترتیب سے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعات اِجمالی طور پر بیان کئے گئے اُسی ترتیب سے سورۂ شعراء میںان کے واقعات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں ، اورتیسری
مناسبت یہ ہے کہ سورۂ فرقان کے آخر میںکفار کی مذمت اور مسلمانوںکی مدح
بیان ہوئی اور سورۂ شعراء کے آخر میںبھی کفار کی مذمت اور مسلمانوںکی
مدح بیان ہوئی ہے۔