Home ≫ ur ≫ Surah Ash Shura ≫ ayat 14 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْؕ-وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِیَ بَیْنَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ(14)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا
اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ: اور انہوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی
پھوٹ ڈالی۔} اس آیت میں اہلِ کتاب کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنے
انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جو دین میں اختلاف
ڈالا کہ کسی نے توحید اختیار کی اور کوئی کافر ہوگیا ،وہ اس سے پہلے جان چکے تھے
کہ اس طرح اختلاف کرنا اور فرقہ فرقہ ہوجانا گمراہی ہے لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے
آپس کے حسد کی وجہ سے ، ریاست وناحق کی حکومت کے شوق میں اور نفسانی حَمِیَّت کے
ابھارنے پر یہ سب کچھ کیا، اور اے حبیب! صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہو چکے تھے لیکن اگر
تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے قیامت کے دن تک ان سے عذاب مُؤخّر فرمانے کی بات نہ گزر
چکی ہوتی تو ان کافروں پر دنیا میں عذاب نازل فرما کر ان کے اور ایمان والوں کے
درمیان کب کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔
اس آیت کا ایک معنی یہ
بھی بیان کیا گیاہے کہ اہلِ کتاب کو جب سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت کی خبر
ملی تو اس وقت انہوں نے آپ صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے
حسد کی وجہ سے آپس میں پھوٹ ڈالی۔(مدارک،
الشوری، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۰۸۴، جلالین، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۰۲، تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۴، ۹ / ۵۸۸، ملتقطاً)
{لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ
مُرِیْبٍ: اس کے متعلق ایک دھوکا
ڈالنے والے شک میں ہیں ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہود ی اور
عیسائی اپنی کتاب پر مضبوط ایمان نہیں رکھتے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ
یہود ی اور عیسائی اس قرآن کے متعلق شک میں مبتلا ہیں جس شک نے انہیں دھوکے
میں ڈالا ہوا ہے۔(مدارک،الشوری،تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۰۸۴، بیضاوی، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۴، ۵ / ۱۲۵، خازن، الشوری، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۹۳، ملتقطاً)