Home ≫ ur ≫ Surah Ash Shura ≫ ayat 19 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَللّٰهُ لَطِیْفٌۢ بِعِبَادِهٖ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ(19)
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ لَطِیْفٌۢ
بِعِبَادِهٖ: اللہ اپنے بندوں پر لطف فرمانے والا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بے شمار احسانات کرتا ہے اور اس کے احسانات
کے دائرے میں نیک اور بد سبھی داخل ہیں حتّٰی کہ بندے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں میں مشغول رہتے ہیں اس کے باوجود وہ انہیں بھوک سے ہلاک
نہیں کرتا۔اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی
حکمت کے تقاضوں کے مطابق روزی دیتا ہے اور وسعت ِعیش عطا فرماتا ہے اور اس
میں مؤمن اور کافر سبھی داخل ہیں۔(خازن،
الشوری، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۹۳-۹۴)
رزق کی وسعت اور تنگی
حکمت کے مطابق ہے:
اس آیت سے معلوم ہو
اکہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو
زیادہ اور بعض کو کم رزق عطا فرماتا ہے اور اس وسعت اور تنگی میں اللہ تعالیٰ
کی بے شمار حکمتیں ہیں۔ اسی سورت میں ایک اور مقام پر اس کی ایک حکمت بیان کرتے
ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ
الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ
مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ‘‘(شوری:۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر اللہ اپنے سب بندوں کیلئے رزق وسیع کردیتا تو
ضرور وہ زمین میں فساد پھیلاتے لیکن اللہ اندازہ
سے جتنا چاہتا ہے اتارتا ہے ، بیشک وہ
اپنے بندوں سے خبردار (ہے، انہیں ) دیکھ رہاہے۔
اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بعض مؤمن بندے ایسے ہیں کہ مالداری اُن
کے ایمان کی قوت کا باعث ہے اگر میں انہیں فقیر محتاج
کردوں تو اُن کے عقیدے فاسد ہوجائیں اور بعض بندے ایسے ہیں کہ تنگی اور محتاجی ان کے ایمان کی قوت کا باعث
ہے، اگر میں انہیں غنی مالدار کردوں تو اُن کے عقیدے خراب ہوجائیں۔( تاریخ بغداد، حرف الالف من آباء الابراہیمین، ۳۰۴۴-ابراہیم بن احمد بن الحسن۔۔۔ الخ، ۶ /
۱۴-۱۵)
لہٰذا جسے رزق میں
تنگی کا سامنا ہے وہ یہ نہ سوچے کہ فلاں شخص کو اتنا مال ملا ہے،فلاں کو اتنی دولت عطا ہوئی ہے جبکہ میں رزق کے معاملے میں تنگیوں کا سامنا کر رہا ہوں بلکہ اسے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ رزق تھوڑا
ملنے میں میری ہی بھلائی ہو گی کیونکہ جس
چیز میں میری بھلائی ہے اسے میرا رب عَزَّوَجَلَّ بہتر جانتا ہے اور چونکہ رزق دینے والا بھی وہی ہے ا س لئے اس کی
بارگاہ سے مجھے دوسروں کے مقابلے
میں کم رزق ملنے میں یقینا میری دنیا اور آخرت کا بھلا ہو گا اور اسی میں میرے ایمان کی قیمتی ترین دولت کی حفاظت کا
سامان ہو گا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دولت ملنے کے بعد میرا دل بدل جائے اور میںاللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں مبتلا ہو کر
اپنے ایمان کی دولت ضائع کر بیٹھوں اور قیامت کے دن جہنم کے دردناک عذاب میں
ہمیشہ کے لئے مبتلا ہو جاؤں ۔ ایسا کرنے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ پریشان دماغ کو راحت اور بے چین دل کو سکون نصیب ہو گا۔