Home ≫ ur ≫ Surah Ash Shura ≫ ayat 51 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ(51)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا: اور کسی آدمی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور علم و حکمت کے کمال کو بیان فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی کرنے اور ان سے کلام کرنے کی صورتیں بیان فرمائی ہیں ۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ۹ / ۶۱۱)
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں کسی آدمی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے البتہ تین صورتیں ایسی ہیں جن میں کسی فردِبشر سے کلام ممکن ہے۔
(1)… وحی کے طور پر۔یعنی اللہ تعالیٰ کسی واسطہ کے بغیر اس کے دل میں اِلقا فرما کر اور بیداری میں یا خواب میں اِلہام کرکے کلام فرمائے۔ اس صورت میں وحی کا پہنچنا فرشتے اور سماعت کے واسطے کے بغیر ہے اور آیت میں ’’اِلَّا وَحْیًا‘‘ سے یہی مراد ہے۔نیز اس میں یہ قید بھی نہیں کہ اس حال میں جس کی طرف وحی کی گئی ہو وہ کلام فرمانے والے کو دیکھتا ہو یا نہ دیکھتا ہو۔
امام مجاہد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سینۂ مبارک میں زبور کی وحی فرمائی۔ اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرزند ذبح کرنے کی خواب میں وحی فرمائی اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معراج میں اسی طرح کی وحی فرمائی جس کا ’’فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى‘‘ میں بیا ن ہے۔ یہ سب اسی قسم میں داخل ہیں ، انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خواب حق ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خواب وحی ہیں ۔
(2)… وہ آدمی عظمت کے پر دے کے پیچھے ہو۔ یعنی رسول پسِ پردہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنے، وحی کے اس طریقے میں بھی کوئی واسطہ نہیں لیکن سننے والے کو اس حال میں کلام فرمانے والے کا دیدار نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی طرح کے کلام سے مشرف فرمائے گئے ۔
شانِ نزول: یہودیوں نے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے کلام کرتے وقت اس کو کیوں نہیں دیکھتے جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دیکھتے تھے؟ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نہیں دیکھتے تھے بلکہ صرف کلام سنتے تھے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
یہاں یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے کوئی ایسا پردہ ہو جیسا جسمانیات کے لئے ہوتا ہے اور آیت میں مذکور پردہ سے مراد سننے والے کا دنیا میں دیدار نہ کر سکنا ہے۔
(3)…اللہ تعالیٰ کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وحی پہنچائے جو اللہ تعالیٰ چاہے۔ وحی کے اس طریقے میں رسول کی طرف وحی پہنچنے میں فرشتے کا واسطہ ہے۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ۹ / ۶۱۱، مدارک، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۱۰۹۳، ابو سعود، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ۵ / ۵۳۴، ملتقطاً)
{اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ: بیشک وہ بلندی والا، حکمت والا ہے۔} یعنی بے شک اللہ تعالیٰ مخلوق کی صفات سے بلند اور پاک ہے اور وہ اپنے تمام اَفعال میں حکمت والا ہے، یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ اِلقاء اور اِلہام کے ذریعے اور کبھی اپنا کلام سنا کر بغیر واسطے کے کلام کرتا ہے ا ور کبھی فرشتوں کے واسطے سے کلام فرماتا ہے۔( تفسیرکبیر، الشوری، تحت الآیۃ: ۵۱، ۹ / ۶۱۴)