Home ≫ ur ≫ Surah At Taghabun ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ: وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کر کے اور عدم سے وجود میں لا کر تم پر احسان فرمایااوراِس کا حق یہ تھا کہ تم سب اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری کر کے اس کے شکر گزار ہوتے لیکن تمہیں کیا ہو گیا کہ تم مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے اورتم میں سے کوئی کافر ہے کوئی مسلمان،(یاد رکھو کہ ) اللّٰہ تعالیٰ کافر کے کفر اور مومن کے ایمان کو جانتا ہے اوروہ ہر ایک کو قیامت کے دن ا س کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔( مدارک، التغابن، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۴۶، روح البیان، التغابن، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۴-۵، ملتقطاً)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! وہی اللّٰہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا تو تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے کافر پیدا فرمایا اور کوئی ایسا ہے جسے مسلمان پیدا فرمایاہے اور اللّٰہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے تو وہ تمہارے ساتھ ایسا معاملہ فرمائے گاجو تمہارے اعمال کے مناسب ہو۔( تفسیرسمرقندی، التغابن، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۳۶۸-۳۶۹، بیضاوی، التغابن، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۳۴۴، ملتقطاً)
یہاں آیت کی دوسری تفسیر کی مناسبت سے تین اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں :
(1)… اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ!اللّٰہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو جنت کا اہل بنایا حالانکہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے اور بعض لوگوں کو جہنم کا اہل بنایا حالانکہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے۔( مسلم، کتاب القدر، باب کلّ مولود یولد علی الفطرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۱، الحدیث: ۳۱(۲۶۶۲))
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ عورت کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے:اے میرے رب!یہ تو نطفہ ہے،یہ تو خون کا لوتھڑا ہے،یہ تو گوشت کا ٹکڑا ہے،اور جب اللّٰہ تعالیٰ اسے پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو فرشتہ عرض کرتا ہے :یہ مُذَکَّر ہے یا مُؤنَّث؟ یہ بد بخت ہے یا سعادت مند؟اس کا رزق کتنا ہے؟اس کی عمر کتنی ہے ؟تو(جس طرح بتایا جاتا ہے) اسی کے مطابق اس کی والدہ کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔( بخاری، کتاب القدر، باب فی القدر، ۴ / ۲۷۱، الحدیث: ۶۵۹۵)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، صادِق اور مَصدوق رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کا نطفہ اس کی والدہ کے پیٹ میں چالیس دن تک رہتا ہے ،پھر اتنے ہی دن وہ جما ہوا خون رہتا ہے ،پھر اتنے ہی دنوں تک وہ گوشت کی بوٹی کی صورت میں رہتا ہے ،پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے تو اسے چار باتوں کی اجازت دی جاتی ہے ،چنانچہ وہ اس کا رزق،موت،عمل اور بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھ دیتا ہے ،پھر ا س کے اندر رُوح پھونکی جاتی ہے ،پس تم میں سے کوئی اہلِ جنت جیسے عمل کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف گز بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو ا س پر لکھا ہوا غالب آ تا ہے اور وہ اہلِ جہنم جیسے کام کرنے لگتا ہے حتّٰی کہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور تم میں سے کوئی اہلِ جہنم جیسے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف گز بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر لکھا ہوا غالب آ جاتا ہے اور وہ اہلِ جنت جیسے عمل کر کے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔( بخاری، کتاب التوحید، باب ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین، ۴ / ۵۶۰، الحدیث: ۷۴۵۴)
تفسیر اور اَحادیث کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات خاص طور پریاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو بے بس اور مجبور نہیں بنایا بلکہ اسے عمر کے آخری حصے تک یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کفر اور ایمان میں سے یونہی اچھے اور برے اعمال میں جسے چاہے اختیار کرے لہٰذا اس کا کافر یا مسلمان ہونا یونہی نیک یا گناہگار ہونااس کے اپنے اختیار سے ہے اور جو کچھ انسان نے اپنے اختیار سے کرنا تھااس کااللّٰہ تعالیٰ کو ازل سے ہی علم تھا اور اسی کے موافق لوحِ محفوظ میں اور ماں کے پیٹ میں فرشتے نے لکھا ہے۔