Home ≫ ur ≫ Surah At Tahrim ≫ ayat 6 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(6)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ۔} یعنی اے ایمان والو!اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری اختیار کرکے، عبادتیں بجالا کر، گناہوں سے باز رہ کر،اپنے گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور انہیں علم و ادب سکھا کراپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔
یہاں آدمی سے کافر اور پتھر سے بت وغیرہ مراد ہیں اور معنی یہ ہے کہ جہنم کی آگ بہت ہی شدیدحرارت والی ہے اور جس طرح دنیا کی آگ لکڑی وغیرہ سے جلتی ہے جہنم کی آگ اس طرح نہیں جلتی بلکہ ان چیزوں سے جلتی ہے جن کا ذکر کیا گیا ہے۔
مزید فرمایا کہ جہنم پر ایسے فرشتے مقرر ہیں کہ جو جہنمیوں پر سختی کرنے والے اور انتہائی طاقتورہیں اور ان کی طبیعتوں میں رحم نہیں ،وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔( خازن، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۸۷، مدارک، التحریم، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۵۸، ملتقطاً)
ہر مسلمان پر اپنے اہلِ خانہ کی اسلامی تعلیم وتربیت لازم ہے:
اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاں مسلمان پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے وہیں اہلِ خانہ کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنابھی اس پر لازم ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں ان سب کو اسلامی احکامات کی تعلیم دے یادلوائے یونہی اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں ۔ترغیب کے لئے یہاں اہلِ خانہ کی اسلامی تربیت کرنے اور ان سے احکامِ شرعیہ پر عمل کروانے سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،چنانچہ حاکم نگہبان ہے،اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہلِ خانہ پر نگہبان ہے،اس سے اس کے اہلِ خانہ کے بارے سوال کیا جائے گا۔عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے ،اس سے ا س کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے مالک کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا،آدمی اپنے والد کے مال میں نگہبان ہے ،اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا،الغرض تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔( بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری والمدن، ۱ / ۳۰۹، الحدیث: ۸۹۳)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں مار کر نماز پڑھاؤ اور ان کے بستر الگ کر دو۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ؟، ۱ / ۲۰۸، الحدیث: ۴۹۵)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات میں اُٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی (نماز کے لئے) جگائے، اگر وہ نہ اُٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔اللّٰہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کے وقت اٹھے،پھرنماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے ،اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔( ابو داؤد، کتاب التطوّع، باب قیام اللیل، ۲ / ۴۸، الحدیث: ۱۳۰۸)
پانی کے چھینٹے مارنے کی اجازت اُس صورت میں ہے جب جگانے کے لئے بھی ایسا کرنے میں خوش طبعی کی صورت ہو یا دوسرے نے ایسا کرنے کا کہا ہو۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے اہلِ خانہ کی صحیح اسلامی تعلیم وتربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
جہنم کے خوف سے روح پرواز کر گئی :
یہاں اسی آیت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت منصور بن عمار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے حج کیااور (سفر کے دوران) کوفہ کے ایک سرائے میں ٹھہرا،پھر میں ایک اندھیری رات میں باہر نکلا تو آدھی رات کے وقت کسی کی درد بھری آواز سنی اور وہ یوں کہہ رہا تھاـ:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تیری عزت و جلال کی قسم!میں نے جان بوجھ کر تیری نافرمانی اور مخالفت نہیں کی اور مجھ سے جب بھی تیری نافرمانی ہوئی میں اس سے ناواقف نہیں تھا لیکن خطا کرنے پر میری بد بختی نے میری مدد کی اور تیری سَتّاری (کی امید) نے مجھے گناہ پر ابھارا اور بے شک میں نے اپنی نادانی کی بنا پر تیری نافرمانی اور مخالفت کی تو اب تیرے عذاب سے مجھے کون بچائے گا،اگر تو نے مجھ سے اپنی (رحمت وعنایت کی) رسی کاٹ لی تو میں کس کی رسی کو تھاموں گا۔جب وہ اپنی اس اِلتجاء سے فارغ ہوا تو میں نے قرآنِ مجید کی یہ آیت تلاوت کی:
’’قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللّٰہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
پھر میں نے ایک شدید حرکت سنی اور اس کے بعد کوئی آواز نہ سنائی دی ۔ میں وہاں سے چلا گیا اور دوسرے دن اپنی رہائش گاہ میں لوٹا تو دیکھا کہ ایک جنازہ رکھاہوا ہے۔میں نے وہاں موجود ایک بوڑھی خاتون سے میت کے بارے میں پوچھا اور وہ مجھے نہیں جانتی تھیـ اس نے کہا:رات کے وقت یہاں سے ایک مرد گزرا ،اس وقت میرا بیٹا نماز پڑھ رہا تھا ،اس آدمی نے قرآنِ مجید کی ایک آیت پڑھی جسے سن کر میرے بیٹے کاانتقال ہو گیا ہے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ التحریم، حکایۃ اخری فی خشیۃ اللّٰہ تعالی، ۳ / ۳۱۸، الحدیث: ۳۸۸۲)