Home ≫ ur ≫ Surah At Takwir ≫ ayat 20 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ(15)الْجَوَارِ الْكُنَّسِ(16)وَ الَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ(17)وَ الصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ(18)اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ(19)ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍ(20)مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍﭤ(21)
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَاۤ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ: تو ان ستاروں کی قسم جو اُلٹے چلیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی6آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تمہارا یہ گمان کہ قرآن جادو یا شعر یا اگلے لوگوں کی کہانیاں ہے،ہر گزدرست نہیں ، مجھے ان ستاروں کی قسم! جو الٹے چلیں اور سیدھے چلیں اوراپنے چھپنے کی جگہوں پرچھپ جائیں ،اور رات کی قسم! جب وہ جانے لگے اور اس کی تاریکی ہلکی پڑجائے ،اور صبح کی قسم! جب وہ ظاہر ہو جائے اوراس کی روشنی خوب پھیل جائے، بیشک یہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے عزت والے رسول حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کا پہنچایا ہواکلام ہے جو کہ قوت والا ہے ، عرش کے مالک کے حضور عزت و مرتبے والا ہے اور آسمانوں میں فرشتے اس کی اطاعت کرتے ہیں اور وہ اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک اللّٰہ تعالیٰ کی وحی پہنچانے پرامانت دار ہے۔( روح البیان، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱۰ / ۳۴۹، خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۵-۲۱، ۴ / ۳۵۶-۳۵۷، ملتقطاً)
{اَلْجَوَارِ الْكُنَّسِ: جوسیدھے چلیں ، چھپ جائیں ۔} حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ ان (آیات میں جن کا ذکر ہے ان) سے مراد وہ پانچ سیارے ہیں جنہیں ’’ خمسۂ مُتَحَیِّرہ‘‘ کہا جاتا ہے،وہ یہ ہیں (1)زُحَل۔ (2)مُشْتَرِی۔(3)مِرِّیخ۔(4) زُہْرَہ۔(5) عُطَارِدْ۔اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے تمام ستارے مراد ہیں۔(قرطبی،التکویر،تحت الآیۃ:۱۶،۱۰ / ۱۶۶،الجزء التاسع عشر، مدارک، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۳۲۵،ملتقطاً)
{اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ: بیشک یہ ضرور عزت والے رسول کا کلام ہے۔} جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’رسول کریم‘‘ سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں البتہ بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہاں رسولِ کریم سے مرادحضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں جیسا کہ علامہ ابوالحسن علی بن محمد ماوردی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں مذکور ’’رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ‘‘ کے بارے میں دو قول ہیں ،ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں ۔( النکت والعیون، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۶ / ۲۱۸)
اورعلامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ‘‘ سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام مراد ہیں اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں ۔( البحر المحیط، التکویر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۸ / ۴۲۵)
اور علامہ قاضی عیاض رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شفاء شریف میں فرماتے ہیں ’’حضرت علی بن عیسیٰ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ’’رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ‘‘ سے مراد نبیٔ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہیں ۔ اس قول کے مطابق اس کے بعد والی آیات میں مذکور اوصاف نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ہیں اور ان کے علاوہ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں ’’رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ‘‘ سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں ۔ اس صورت میں اگلی آیات میں مذکور اوصاف حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ہوں گے۔( شفاء شریف، القسم الاول، الفصل الخامس، ص۳۹، الجزء الاول)
{ذِیْ قُوَّةٍ: جو قوت والا ہے۔} حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی قوت کا یہ عالَم ہے کہ انہوں نے حضرتِ لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیاں جڑ سے اکھاڑ کر اپنے پروں پر رکھ لیں اور انہیں آسمان کی بلندی تک اٹھا کر پلٹ دیا۔ایک مرتبہ ابلیس کو بیتُ المقدس کی سرزمین پرایک وادی میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام کرتے ہوئے دیکھا تو اسے ایک پھونک مار کر ہند کے دور دراز پہاڑوں میں پھینک دیا۔ایک چیخ مار کر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے دلوں کو پھاڑ دیا اور وہ اس چیخ سے ہلاک ہو گئے۔ان کی طاقت کا یہ حال تھا کہ پلک جھپکنے میں آسمان سے زمین پر تشریف لاتے اور پھر زمین سے آسمان پر پہنچ جاتے۔( خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۳۵۷)
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی طاقت:
اب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی طاقت اور قوت کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو۔چنانچہ قرآنِ پاک کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ‘‘(حشر:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تم اسے جھکا ہوا، اللّٰہ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًا ‘‘(دہر:۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے حبیب!) بیشک ہم نے تم پر تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن اتارا۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ سے اپنا دیدار کروانے کی دعا کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:
’’لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْۚ-فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا‘‘(اعراف:۱۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ،البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نو ر چمکایا تواسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ بیہوش ہوکر گر گئے۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰىؕ(۷) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ(۸) فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ(۹) فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ(۱۰) مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(۱۱) اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى(۱۲) وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ(۱۳) عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى(۱۴)عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰىؕ(۱۵) اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰىۙ(۱۶) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى‘‘(نجم:۷۔۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس حال میں کہ وہ آسمان کے سب سے بلند کنارہ پر تھے۔پھر وہ جلوہ قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔تو دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔دل نے اسے جھوٹ نہ کہا جو (آنکھ نے) دیکھا۔تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑ تے ہو۔اور انہوں نے تو وہ جلوہ دوبار دیکھا۔سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔اس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ آنکھ نہ کسی طرف پھری اور نہ حد سے بڑھی۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے زیادہ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو طاقت اور قوت عطا فرمائی ہے ۔
{عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍ: عرش کے مالک کے حضور عزت والا ہے۔} حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو عزت مقام اور مرتبہ حاصل ہے وہ کسی اور فرشتے کے پاس نہیں ۔
بارگاہِ رب قدیر عَزَّوَجَلَّ میں مقامِ حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ:
اب یہاں اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عزت،مقام اور مرتبے کے بے شمار پہلوؤں میں سے 5 پہلو ملاحظہ ہوں ۔
(1)…اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جہاں بھی اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے خطاب کیا توحضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے نام سے نہیں بلکہ اَوصاف اور اَلقاب سے یاد کیا۔
(2)…اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر مدینہ منورہ کے یہودیوں اور مکہ مکرمہ کے مشرکین کی اس جاہلانہ گفتگو کا رد کرنے کے لئے اسے نقل کیا جو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بارے میں کرتے تھے لیکن ان گستاخوں کی اس بے اَدبانہ ندا کا کہ نام لے کر حضور کو پکارتے اسے نقل کرنے کے طور پر بھی ذکر نہ کیا ، ہاں جہاں انہوں نے وصف ِکریم سے ندا کی تھی اگرچہ ان کے گمان میں مذاق اڑانے کے طور پر تھی اسے قرآنِ کریم میں نقل کیا گیا۔
(3)…اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے شہر کی قسم ،ان کی باتوں کی قسم، ان کے زمانے کی قسم اور ان کی جان کی قسم بیان فرمائی۔یہ وہ مقام ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ۔
وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام و بقا کی قسم
(4)…دیگر اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کفار نے جو جاہلانہ اور بیہودہ گفتگو کی ا س کا جواب ان انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہی اپنے حِلم اور فضل کے لائق دیا لیکن جب اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی شان میں کفار نے زبان درازی کی تو اس کا جواب خود رب تعالیٰ نے دیا۔
(5)…نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو یہ پسند تھا کہ خانہ کعبہ قبلہ ہو جائے اور ایک دن ا س امید پر آسمان کی طرف بار بار دیکھا کہ قبلہ کی تبدیلی کاحکم آ جائے تو اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ‘‘(بقرہ:۱۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم تمہارے چہرے کا آسمان کی طرف بارباراٹھنا دیکھ رہے ہیں تو ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیردیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے تو ابھی اپناچہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر دو۔
الغرض اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جو مقام اور مرتبہ حاصل ہے اسے مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ۔
یَا صَاحِبَ الْجَمَالْ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَرْ
مِنْ وَّجْہِکَ الْمُنِیرْ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُکَمَا کَانَ حَقُّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
تیرے تو وَصف ’’عیبِ تناہی‘‘ سے ہیں بَری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
کہہ لے گی سب کچھ اُن کے ثناخواں کی خامشی
چپ ہورہا ہے کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے
لیکن رضاؔ نے ختمِ سخن اس پہ کردیا
خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
{مُطَاعٍ ثَمَّ: وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے۔} آسمان میں فرشتے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت کرتے ہیں ، جیسے معراج کی رات ان کے کہنے پر فرشتوں نے آسمان کے دروازے کھول دئیے اور جنت کے خازن نے جنت کے دروازے کھول دئیے۔( خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۵۷)
یہ تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت کا حال ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اطاعت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ‘‘(النساء:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللّٰہ کا حکم مانا۔
جبکہ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے کہیں نہیں فرمایا کہ ان کی اطاعت اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔
{اَمِیْنٍ: امانت دار ہے۔} حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اللّٰہ تعالیٰ کی وحی اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک پہنچانے میں امانت دار ہیں اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس وحی کو مخلوق تک پہنچانے میں امانت دار ہیں ،اللّٰہ تعالیٰ کے اَسرار اور رُموز میں امانت دار ہیں اور آپ ایسے امانت دار ہیں کہ آپ کی جان کے دشمن بھی آپ کو امین کہتے اور اپنی امانتیں بے خوف و خطر آپ کے پاس رکھوا دیتے تھے۔