banner image

Home ur Surah At Tin ayat 2 Translation Tafsir

اَلتِّیْن

At Tin

HR Background

وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِ(1)وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَ(2)وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ(3)

ترجمہ: کنزالایمان انجیر کی قسم اور زیتون ۔ اور طورِ سینا ۔ اور اس امان والے شہر کی ۔ ترجمہ: کنزالعرفان انجیر کی قسم اور زیتون کی۔ اور طورِ سینا کی۔ اور اس امن والے شہر کی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ: انجیر کی قسم اور زیتون کی۔ } اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے انجیر اور زیتون کی قسم ارشاد فرمائی کیونکہ ان چیزوں  میں  ایسے فوائد اور منافع موجود ہیں  جو ان کے خالق، رب تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتے ہیں ،جیسے انجیر انتہائی عمدہ میوہ ہے جس میں  فُضلہ نہیں  اور یہ بہت جلد ہضم ہونے والا،زیادہ نفع والا،،قبض دور کر دینے والا،مثانے میں  موجود ریت اور پتھری نکال دینے والا ،جگر اور تلی میں  پھنسی گندے مواد کی گانٹھ کوکھول دینے والا، بدن کو فربہ کرنے والا اوربلغم کو چھانٹنے والا ہے جبکہ زیتون ایک مبارک درخت ہے، اس کا تیل روشنی کے کام لایا جاتا ہے ، سالن کی طرح کھایا بھی جاتا ہے اوریہ وصف دنیا کے کسی تیل میں  نہیں  ،اس کا درخت خشک پہاڑوں میں  پیدا ہوتا ہے جن میں  چکنائی کا نام و نشا ن نہیں ، بغیر خدمت کے پرورش پاتا ہے اور ہزاروں  برس باقی رہتا ہے۔( خازن، والتین، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۹۰، روح البیان، التین، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۴۶۶-۴۶۷، ملتقطاً)

انجیر اور زیتون کے بارے میں  اَحادیث:

            انجیر کے بارے میں  حضرت ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’انجیر کھاؤ،اگر میں  کہوں  کہ یہ وہ پھل ہے جو کہ جنت سے نازل ہو اہے تو کہہ سکتا ہوں  کیونکہ جنت کے پھل میں  گٹھلی نہیں  ہوتی تو اسے کھاؤ کیونکہ یہ بواسیر کو ختم کرتا اور گنٹھیا کے درد میں  فائدہ پہنچاتا ہے۔( مسند فردوس، باب الکاف، ۳ / ۲۴۳، الحدیث: ۴۷۱۶)

            اورزیتون کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ وَ شَجَرَةً تَخْرُ جُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْنَ‘‘(مؤمنون:۲۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (ہم نے) درخت (پیدا کیا )جوطور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے، تیل اور کھانے والوں  کے لیے سالن لے کر اگتا ہے۔

            اورحضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’برکت والے درخت زیتون کی مسواک بہت اچھی ہے کیونکہ یہ منہ کو خوشبودار کرتی اور اس کی بدبو زائل کرتی ہے،یہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مسواک ہے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۲۰۱، الحدیث: ۶۷۸)

{وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ: اورطورِ سینا کی۔ } طور وہ پہاڑ ہے جس پر اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے ساتھ کلام کرنے سے مشرف فرمایا اور سینااس جگہ کا نام ہے جہاں  یہ پہاڑ واقع ہے اور ا س جگہ کو سینا ا س کے خوش مَنظر ہونے یا مبارک ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں  ۔بعض مفسرین کے نزدیک طورِ سیناسے مراد خوش منظر یا مبارک پہاڑ ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک ہر اس پہاڑ کو طورِ سینا کہتے ہیں  جہاں  کثرت سے پھل دار درخت ہوں ۔( تفسیر کبیر، التین، تحت الآیۃ: ۲، ۱۱ / ۲۱۱-۲۱۲)

            اس سے معلوم ہوا کہ جس جگہ اور مقام کو اللّٰہ تعالیٰ کے مقبول بندوں  کے ساتھ نسبت حاصل ہو جائے وہ جگہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عظمت والی ہو جاتی ہے۔

{وَهٰذَاالْبَلَدِالْاَمِیْنِ: اور اس امن والے شہر کی۔ } یعنی اور اس امن والے شہر مکہ مکرمہ کی قسم! امام عبد اللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’انجیر، زیتون،طورِ سینا اور مکہ مکرمہ کی قسم ذکر فرمانے سے ان بابرکت مقامات کی عظمت و شرافت ظاہر ہوئی اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے ان مقامات پر رہنے کی وجہ سے ظاہر ہونے والی خیر وبرکت واضح ہوئی،چنانچہ جس جگہ انجیر اور زیتون اُگتا ہے وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہجرت گاہ ہے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت اور پرورش بھی اسی جگہ ہوئی۔طور وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ندا دی گئی اور مکہ مکرمہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ولادت ہوئی،اسی شہر میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنی نبوت و رسالت کا اعلان فرمایا اورا سی شہر میں  خانہ کعبہ ہے (جس کی طرف منہ کر کے پوری دنیا کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں )۔( مدارک، التین، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۶۰)