banner image

Home ur Surah At Tur ayat 48 Translation Tafsir

اَلطُّوْر

At Tur

HR Background

وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُ(48)وَ مِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْهُ وَ اِدْبَارَ النُّجُوْمِ(49)

ترجمہ: کنزالایمان اور اے محبوب تم اپنے رب کے حکم پر ٹھہرے رہوکہ بیشک تم ہماری نگہداشت میں ہو اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو جب تم کھڑے ہو۔ اور کچھ رات میں اس کی پاکی بولو اور تاروں کے پیٹھ دیتے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اے محبوب!تم اپنے رب کے حکم پر ٹھہرے رہو کہ بیشک تم ہماری نگاہوں (حفاظت) میں ہو اور اپنے قیام کے وقت اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے پاکی بیان کرو۔ اور رات کے کچھ حصے میں اس کی پاکی بیان کرو اور تاروں کے جانے کے بعد۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ: اور اے محبوب!تم اپنے رب کے حکم پر ٹھہرے رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو حکم دیا ہے آپ اس پر قائم رہیں  اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتے اور ممنوعات سے رکے رہیں  اور اللہ تعالیٰ کے پیغامات پہنچاتے رہیں  اور جو مہلت ان مشرکین کو دی گئی ہے اس پر دِل تنگ نہ ہوں  بیشک آپ ہماری حفاظت میں  ہیں  وہ آپ کوکچھ نقصان نہیں  پہنچاسکتے۔( تفسیر طبری، الطور، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱۱ / ۵۰۰، جلالین، الطور، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۴۳۷، ملتقطاً)

{ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُ: اور اپنے قیام کے وقت اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے پاکی بیان کرو۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ نماز کے لئے اپنے قیام کے وقت اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو۔ اس صورت میں  حمد سے تکبیرِ اُولیٰ کے بعد سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھنا مراد ہے۔

دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ جب سو کر اٹھیں  تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح کیا کریں ۔

تیسرا معنی یہ ہے کہ ہر مجلس سے اٹھتے وقت حمد اور تسبیح کیا کریں ۔( مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۱۱۷۷)

مجلس سے اٹھتے وقت کی دعا:

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص کسی مجلس میں  بیٹھا اور اس نے مجلس میں  بہت سی لَغْوْ باتیں  کیں  تو اٹھنے سے پہلے یہ کلام کہے ،اس کی لَغْوْ باتوں  کی مغفرت ہو جائے گی، ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰـہَ اِلَّآ اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ‘‘ یعنی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تیری پاکی اور حمد بیان کرتے ہوئے میں  گواہی دیتا ہوں  کہ تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں ، میں  تم سے مغفرت طلب کرتا ہوں  اور تیری بارگاہ میں  توبہ کرتا ہوں ۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما یقول اذا قام من مجلسہ، ۵ / ۲۷۳، الحدیث: ۳۴۴۴)

نماز سے پہلے پڑھا جانے والا وظیفہ:

حضرت عاصم بن حمید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ، میں  نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے سوال کیا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کس طرح اپنی رات کی نماز شروع فرماتے تھے ،آپ نے جواب دیا: تم نے مجھ سے وہ بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی اور نے نہیں  پوچھی، نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو دس مرتبہ اللہ اَکْبَرْ کہتے،دس مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہتے،دس مرتبہ سُبْحَانَ اللہ کہتے،دس مرتبہ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ کہتے،دس مرتبہ اَسْتَغْفِرُ اللہ کہتے،پھر یوں  دعا مانگتے ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَ اہْدِنِیْ وَ ارْزُقْنِیْ وَ عَافِنِی‘‘ یعنی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ مجھے بخش دے اور مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے رزق دے اور مجھے عافِیَّت دے۔ پھر آپ قیامت کے دن جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما یستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء، ۱ / ۲۹۷، الحدیث: ۷۶۶)

{ وَ مِنَ الَّیْلِ: اور رات کے کچھ حصے میں ۔} یعنی رات کے کچھ حصے میں  اور تاروں  کے چھپ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرو ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان آیات میں  تسبیح سے مراد نماز ہے۔( مدارک، الطور، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۷۷)