سورۂ
زُخْرُفْ کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ا س
میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ
کرنے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اللہ تعالیٰ کا رسول ہونے،قرآنِ مجید اللہ
تعالیٰ کا کلام ہونے، قیامت کے دن مُردوں کو دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی
جزاء و سزا ملنے پر کلام کیا گیا ہے، اور اس سورت میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ،
(1)…اس سورت کی ابتداء میں بتایاگیا کہ
قرآنِ مجیدعربی زبان میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسے عربی زبان
میں نازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اَوّلین مُخاطَب یعنی عرب والے اس کے معانی اور
اَحکام کو سمجھ سکیں ۔
(2)… انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مذاق اڑانے والی سابقہ امتوں کا
انجام بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی
اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی طرف سے پہنچنے والی
اَذِیَّتوں پر تسلی دی اور کفارِ مکہ کو ڈرایا کہ اگر یہ اپنی حرکتوں سے باز نہ
آئے تو ان کا انجام بھی سابقہ لوگوں جیسا ہو سکتا ہے۔
(3)…اللہ
تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی چند چیزیں بیان کی گئیں اور یہ بتایاگیا کہ
کفار کی جہالت اور بیوقوفی کا یہ حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق ماننے کے باوجود
بتوں کی پوجا کرتے ہیں ۔
(4)…کفارِ مکہ فرشتوں کی عبادت کرتے اور
انہیں اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ا س پر ان کاشدید رد کیا گیا
اور بیٹیوں کے معاملے میں ان کا اپنا حال بیان کیاگیا کہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی
پیدا ہونے کے بارے میں بتایاجائے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا اور وہ غم و غصے
میں بھرا رہتا ہے اور یہ بتایا گیا کہ فرشتوں کی عبادت کرنے کے معاملے میں ان کے
پاس کوئی عقلی اور نقلی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ صرف اپنے باپ دادا کے نقشِ قدم پر
چلتے ہوئے ایساکر رہے ہیں اور یہی حال ان سے پہلے کفار کا تھا کہ ان کے پاس بھی
اپنے باپ دادا کی اندھی پیروی کے علاوہ شرک کی کوئی اوردلیل نہ تھی۔
(5)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوران کی قوم،حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کے واقعات بیان فرمائے تاکہ کفار ِمکہ ان قوموں
کے اعمال کے نتائج سن کر عبرت اور نصیحت حاصل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ حضورِ
اَقدس صَلَّی
اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہونے کے بارے میں کفار کے
اعتراضات کا جواب دیا گیا۔
(6)…یہ بیان کیاگیا کہ دنیا کے سازو سامان
اور زیب و زینت کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی قدر نہیں
اور آخرت کی نعمتیں پرہیز گاروں کے لئے ہیں ۔
(7)…یہ بتایاگیا کہ جو قرآن کی ہدایتوں
سے منہ پھیرے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب اوراس کی پکڑ سے بے خوف
ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے جو دنیا میں اس کے
ساتھ رہتا ہے، اسے نیک کاموں سے روکتا اور حرام کاموں میں مبتلا کرتا ہے اور وہ
شخص گمراہ ہونے کے باوجود یہ سمجھتا رہتاہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہے،نیز آخرت میں
بھی وہ شیطان ا س کا ساتھی ہو گا اور اس وقت وہ شخص شیطان کے ساتھ پر حسرت وا فسوس
کا اظہار کرے گا لیکن ا س کا اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔
(8)…کفارِ مکہ کے ایمان قبول نہ کرنے پر
حضور پُر نور صَلَّی
اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو
تسلی دی گئی اور بتایا گیا کہ یہ لوگ دل کے بہرے اور اندھے ہیں جس کی وجہ سے یہ
ایمان نہیں لائیں گے، ا س لئے آپ کفار کی سرکشی پر رنجیدہ نہ ہوں بلکہ قرآنِ پاک
کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ر ہیں ۔
(9)…یہ بتایا گیا کہ مُتّقی مسلمانوں کے
علاوہ دیگر لوگ قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اور فرمانبردار مسلمان اس دن
بے خوف ہوں گے اور انہیں نیک اعمال کے صدقے میں جنت کی عظیم الشّان نعمتیں ملیں گی
جبکہ کافر ہمیشہ کے لئے جہنم کے عذاب میں رہیں گے اور جہنم میں ان کا چیخنا
چِلاّنا اورفریادیں کرنا انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔
(10)…اس سورت کے آخر میں نبی کریم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف دارُ النَّدْوَہ میں تیار کی
گئی کفارِ مکہ کی سازش کا ذکر کیاگیا ۔