banner image

Home ur Surah Az Zukhruf ayat 14 Translation Tafsir

اَلزُّخْرُف

Az Zukhruf

HR Background

وَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ(12)لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَ(13)وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ(14)

ترجمہ: کنزالایمان اور جس نے سب جوڑے بنائے اور تمہارے لیے کشتیوں اور چوپایوں سے سواریاں بنائیں ۔ کہ تم ان کی پیٹھوں پر ٹھیک بیٹھو پھر اپنے رب کی نعمت یاد کرو جب اس پر ٹھیک بیٹھ لو اور یوں کہو پاکی ہے اُسے جس نے اس سواری کو ہمارے بس میں کردیا اور یہ ہمارے بُوتے کی نہ تھی۔ اور بے شک ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا اور تمہارے لیے کشتیوں اور چوپایوں کی سواریاں بنائیں ۔ تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر سیدھے ہو کر بیٹھو پھر جب اس پر سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ تواپنے رب کا احسان یاد کرو اور یوں کہو: پاک ہے وہ جس نے اس سواری کو ہمارے قابو میں کردیا اور ہم اسے قابوکرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف ہی پلٹنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ: اور جس نے تمام جوڑوں  کو پیدا کیا۔} یعنی عزت و علم والا اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے مخلوق کی تمام اَقسام کے جوڑے بنائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :’’اس سے مراد یہ ہے کہ تمام اَنواع کے جوڑے بنائے جیسے میٹھا اور نمکین، سفید اور سیاہ،مُذَکَّر اور مُؤنَّث وغیرہ۔( روح البیان، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۳۵۵)

{وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ: اور تمہارے لیے کشتیوں  اور چوپایوں  کی سواریاں  بنائیں ۔} آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اور تمہارے لیے کشتیوں  اور چوپایوں  کی سواریاں  بنائیں  تاکہ تم خشکی اور تری کے سفر میں  کشتیوں  کی پشت اور چوپایوں  کی پیٹھوں  پر سیدھے ہو کر بیٹھو ،پھر جب اس سواری پر سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ تو دل میں اپنے رب کا احسان یاد کرو اور اپنی زبان سے یوں  کہو: وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر عیب سے پاک ہے جس نے اس سواری کو ہمارے قابو میں  کردیا اور ہم اسے قابوکرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے اور بیشک ہم آخر کار اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی پلٹنے والے ہیں ۔( خازن،الزخرف،تحت الآیۃ:۱۲-۱۴،۴ / ۱۰۲، جلالین مع صاوی،الزخرف،تحت الآیۃ:۱۲-۱۴، ۵ / ۱۸۸۸، ملتقطاً)

سواری پر سوار ہوتے وقت کی دعائیں :

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب سفر میں  تشریف لے جاتے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے وقت پہلے تین بار اللہ اَکْبَرْ پڑھتے، پھر یہ آیت پڑھتے ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ(۱۳) وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘‘۔ (اور اس کے بعدیہ دعائیں  پڑھتے)۔ ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ فِی سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَ مِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی اَللّٰہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ہٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہٗ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَ الْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَہْلِ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْ ءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْاَہْلِ‘‘اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو ان دعاؤں  کے ساتھ مزید یہ پڑھتے ’’آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ‘‘۔(مسلم، کتاب الحج، باب ما یقول اذا رکب الی سفر الحجّ وغیرہ، ص۷۰۰،  الحدیث: ۴۲۵(۱۳۴۲))

اورحضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا ،میری امت میں  سے جو شخص کشتی میں  سوار ہوتے وقت یہ پڑھ لے تو وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گا: ’’بِسْمِ اللہ الْمَلِکِ وَ مَا قَدَرُوا اللہ حَقَّ قَدْرِہٖ وَ الْاََرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ السَّمَاوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہٖ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُونَo بِسْمِ اللہ مَجْرَاہَا وَ مُرْسَاہَا اِنَّ رَبِّی لَغَفُوْرٌ رَّحِیمٌ‘‘۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۳۲۹، الحدیث: ۶۱۳۶)