Home ≫ ur ≫ Surah Az Zukhruf ≫ ayat 44 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَۚ-وَ سَوْفَ تُسْــٴَـلُوْنَ(44)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ: اور بیشک یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کیلئے شرف و بزرگی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ قرآن آپ کے لئے بطورِ خاص عظیم شرف کا سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور حکمت عطا فرمائی اور عمومی طور پر آپ کی امت کے لئے بھی عظمت کا سبب ہے کہ انہیں اس سے ہدایت فرمائی اوراے لوگو! عنقریب قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے قرآن کا کیا حق ادا کیا، اس کی کیا تعظیم کی اور اس نعمت کا کیا شکر بجالائے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۱۱۰۱، ملتقطاً)
مسلمانوں کی عظمت و نامْوَری کا ذریعہ اور مسلمانوں کا حال:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید وہ عظیم الشّان کتاب ہے جو اس امت کی عظمت،نامْوَری اور چرچے کا ذریعہ ہے،اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارا چرچا ہے۔ تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
اس کے ذریعے عظمت اور نامْوَری اسی صورت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ اس کے اَحکام اور ا س کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ،اگر تاریخ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت روشن دن سے بھی زیادہ واضح نظر آئے گی کہ دینِ اسلام کے ابتدائی سالوں میں مسلمانوں کو دنیا میں جو عظمت ملی ، دنیا جہاں میں ان کا سکہ چلا اور دبدبہ بیٹھا اور ہر طرف ان کی نیک نامی کا جو چرچا ہوا، اس کا بنیادی سبب قرآنِ مجید سے والہانہ وابَستگی،اس کے احکامات اور تعلیمات کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھنا اور مشکل ترین حالات میں بھی ان پر عمل پیرا رہنا تھا اور فی زمانہ مسلمان دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار نظر آ رہے ہیں اس کی بہت بڑی وجہ قرآنِ مجید سے ان کی وابَستگی ختم ہو جانا ،اس کے احکامات کی پرواہ نہ کرنا اور ان پر عمل چھوڑ دینا ہے، بلکہ قرآنِ کریم سے ان کی دوری کا یہ حال ہے کہ مسلمانوں کی ایک تعدادکو قرآنِ مجید کے دئیے ہوئے احکامات اور اس کی روشن تعلیمات کی خبر تک نہیں ہے حتّٰی کہ صرف قرآنِ مجید کا عربی متن پڑھنے کا کہا جائے تو وہ تک انہیں صحیح پڑھنا نہیں آتا،گھروں میں ہفتوں اور مہینوں قرآنِ مجید سنہری کپڑوں میں ملبوس پڑا رہتا ہے اور موقع ملنے پر اس سے گَرد وغیرہ کی تہ صاف کر کے دوبارہ اسی مقام پر رکھ دیا جاتا ہے ۔اے کاش!
درسِ قرآں ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت سے گلہ ہے
فریاد ہے اے کشتیِ اُمت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اس آیت ِمبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حالت پر غور کر لے کہ ا س نے قرآنِ مجید کا کتنا حق ادا کیا،قرآن کی کیا تعظیم کی ، اس نعمت کا کتنا شکر بجا لایا اور اس کے احکامات اور تعلیمات پر کس قدر عمل کیا۔