Home ≫ ur ≫ Surah Az Zumar ≫ ayat 18 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰىۚ-فَبَشِّرْ عِبَادِ(17)الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ(18)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا: اورجنہوں نے بتوں کی پوجا سے اجتناب کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے بتوں کی پوجا کرنے سے اجتناب کیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کی اوراس کی توحید کے اقر ار،صرف اسی کی عبادت اور ا س کے علاوہ تمام معبودوں سے براء ت کا اظہار کیا ،انہیں کے لئے دنیا میں اور آخرت میں خوشخبری ہے،دنیا میں نیک اعمال کی وجہ سے اچھی تعریف ،موت کے وقت اور قبر میں رکھے جانے کے وقت راحت اور یونہی آخرت میں قبر وں سے نکالنے کے وقت،حساب کے لئے کھڑے ہوتے وقت، پل صرا ط پار کرتے وقت،جنت میں داخل ہوتے وقت اور جنت میں الغرض ان تمام مقامات پر بھلائی ، راحت اور رحمت انہیں حاصل ہو گی ،تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ان بندوں کو خوشخبری سنادو جو کان لگا کر غور سے بات سنتے ہیں ،پھر اس پر عمل کرتے ہیں جس میں ان کی بہتری ہو۔یہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور وحدانیّت کے اقرار کی ہدایت دی اور یہی عقلمند ہیں ۔ شانِ نزول ۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ایمان لائے تو آپ کے پاس حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف،حضرت طلحہ ،حضرت زبیر ،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعید بن زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آئے اور ان سے حال دریافت کیا ،انہوں نے اپنے ایمان کی خبر دی تو یہ حضرات بھی سن کر ایمان لے آئے۔ ان کے حق میں یہ آیت ’’ فَبَشِّرْ عِبَادِ…الاٰیہ‘‘ نازل ہوئی۔ (تفسیر طبری، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۱۰ / ۶۲۴-۶۲۵ ، جلالین، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸،ص۳۸۶، خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۴ / ۵۲)
قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو جو احکام دئیے گئے ہیں ان میں ثواب کے اعتبار سے فرق ہے ، یوں بعض اعمال بعض سے بہتر ہیں ،جیسے تنگدست مقروض کو آسانی آنے تک مہلت دینا اور قرض معاف کر دینا دونوں بہتر ہیں لیکن قرض معاف کردینا مہلت دینے سے زیادہ بہتر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے آسانی تک مہلت دو اور تمہارا قرض کوصدقہ کردینا تمہارےلئے سب سے بہتر ہے اگر تم جان لو۔
اسی طرح جیسی کسی نے تکلیف پہنچائی ویسی اسے سزا دینا اور صبر کرنا دونو ں جائز ہیں لیکن صبر کرنا سزا دینے سے زیادہ بہتر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ‘‘(نحل:۱۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر تم (کسی کو)سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔
یونہی سب سے بہتر نیک عمل وہ ہے جو اِستقامت کے ساتھ ہو اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم اتنے عمل کی عادت بناؤ جتنے کی تم طاقت رکھتے ہو،پس بہترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ ہو اگرچہ کم ہی ہو۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب المداومۃ علی العمل، ۴ / ۴۸۷، الحدیث: ۴۲۴۰)
جولوگ جائز احکام پر عمل کرتے ہیں وہ ملامت کے مستحق نہیں اورجو ثواب کے کام کرتے ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں لیکن جو زیادہ بہتر اعمال بجالاتے ہیں وہ زیادہ ثواب کے مستحق اور زیادہ قابلِ تعریف ہیں ۔